تشریح:
1۔اس اعرابی کا خیال تھا کہ بیعت کے بعد مدینہ طیبہ میں اقامت ضروری ہے اگر بیعت نہ ہو تو مدینہ طیبہ سے باہر جا سکتا ہے، اس لیے وہ بیعت توڑنے کا بار بار اعادہ کر رہا تھا۔ وہ مرتد نہیں ہوا تھا جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ارتداد کا حکم جاری نہیں فرمایا، نیز اگر وہ مرتد ہوتا تو بار بار یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے الفاظ استعمال نہ کرتا بلکہ وہ اسلام میں رہتے ہوئے مدینہ طیبہ سے رخصت چاہتا تھا اور بیعت سے واپسی کے الفاظ رخصت کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
2۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب مدینہ طیبہ تمام شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماء کا اجماع بھی قابل اعتبار ہوگا کیونکہ مدینہ طیبہ میں بُرے اور بدکار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے، اس لیے وہاں کے علماء سب اچھے ہوں گے لیکن مدینہ طیبہ کے متعلق یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ طیبہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ہمارے رجحان کے مطابق خلاف شرع امور میں اہل حرمین کا اجماع کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔طالب حق کو ہمیشہ دلیل کی پیروی کرنی چاہیے، کو اس کے قائل تعداد میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ واللہ أعلم۔