تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر مذکورہ حدیث انتہائی اختصار سے بیان کی ہے، مفصل حدیث پہلے بیان ہوچکی ہے۔ (حدیث:6830) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ امر خلافت کے متعلق رائے دینے کا حق تمام مسلمانوں کو ہے جسے مسلمان اختیار کرلیں اس کی بیعت کرلی جائے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں کی وفات کے بعد ہم فلاں کی بیعت کر لیں گے۔ خلیفے کا انتخاب کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کا اجتماعی حق ہے۔ اس حدیث میں مدینہ طیبہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ وہ کتاب وسنت کا گھر ہے۔ ایک روایت میں اس وقت اہل مدینہ کی ان الفاظ میں تعریف بیان ہوئی ہے کہ وہاں زیرک، سمجھدار، دانا صاحب بصیرت اور صاحب علم وفضل لوگ ہوں گے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3928)
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے کہ حرمین کے علماء کا اجماع دوسرے شہروں کے علماء کے اجماع کے مقابلے میں زیادہ معتبر ہوگا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بعد اگر اہل مدینہ کسی مسئلے پر اتفاق کر لیں تو ان کی بات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہوگی، ہاں اگرنص صریح کے خلاف اجماع ہوا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ (فتح الباري: 375/13)