تشریح:
جمہور اہل علم کے نزدیک تکبیر تحریمہ، یعنی آغاز نماز میں اللہ أکبر کہنا نماز کے لیے رکن ہے جبکہ کچھ حضرات اسے صحت نماز کے لیے شرط قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ رکن اور شرط کا مفہوم تقریبا ایک ہی ہے کہ ان کے بغیر مطلوبہ فعل مکمل نہیں ہوتا، البتہ ان دونوں میں اس طرح فرق کیا جاتا ہے کہ رکن کسی چیز کی ماہیت میں داخل ہوتا ہے، جیسے رکوع اور سجدہ وغیرہ جبکہ شرط اس سے خارج ہوتی ہے، جیسے وضو وغیرہ،نیز تکبیر تحریمہ کا اطلاق صرفاللہ أکبر پر ہوگا جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ أکبر کے بجائے اللہ أجل، اعظم یا الرحمٰن أکبر یا کوئی بھی تسبیح وتہلیل وغیرہ کلمات تعظیم بھی کافی ہیں، یعنی لاإله إلااللہ وغیرہ سے بھی کام چل سکتا ہے۔ مؤخر الذکر موقف صحیح احادیث کے خلاف ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب تم نماز کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ ہوکر اللہ اکبر کہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6251) حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلے کی طرف منہ کرتے، اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ أکبر کہتے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:803) امام بزار ؒ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تواللہ أکبر کہتے۔ اس کے علاوہ مسند امام احمد اور سنن نسائی میں ہے کہ واسع بن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: نماز شروع کرتے وقت اللہ أکبر کہو‘‘ جیسا کہ طبرانی وغیرہ میں صراحت ہے۔ ان تمام آثاروروایات سے معلو م ہوا کہ نماز کا آغازاللہ أکبر سے کیا جائے، اس کے بجائے دیگر کلمات تعظیم یا تسبیح وتہلیل سے کام نہ چلایا جائے۔ (فتح الباري:281/2)