تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں افتتاحِ نماز کا ذکر کیا تھا کہ وہ اللہ أکبر سے ہونا چاہیے، اس حدیث میں واضح طور پر اس کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ دیگر احادیث میں بھی اس کے متعلق وضاحت ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز کی کنجی وضو ہے، اس کی تحریم اللہ أکبر اور تحلیل السلام علیکم ورحمة اللہ ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:618) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1110(498)) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ اللہ أکبر سے نماز شروع کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738) ان روایات سے معلوم ہوا کہ نماز کا افتتاح اللہ أکبر سے ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:281/2)(2) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ یہ پہلے کا حکم ہے جو منسوخ ہوچکا ہے۔ اب حکم یہ ہے کہ جب امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تندرست مقتدیوں کو بیٹھ کر نہیں بلکہ کھڑے ہو کر اقتدا کرنی چاہیے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھائی تھی اور آپ کے پیچھے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل اور فیصلہ یہی ہے اور اسی کو امام بخاری ؒ نے اختیار کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:689)