تشریح:
1۔اس حدیث کے عنوان کے پہلے جز سے مطابقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی رغبت دلائی کہ اٹھ کر اپنے عزم وارادے سے نماز پڑھیں لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضا وقدر کا سہارا لیا جیسا کہ عام طور پر کوئی عمل نہ کرنے کا بہانہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بر موقع بہانہ سازی سن کر تعجب کرتے ہوئے واپس ہوگئے، پھر نیند کا بھی غلبہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ سختی اس لیے نہیں کی کہ نماز تہجد فرض نہ تھی۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عمل کرکے نماز پڑھتے تو اچھا تھا۔
2۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قول یا فعل سے دفاع کرنا انسان کی فطرت ہے۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف غلبہ نیند کے باعث ترک قیام سے عذر خواہی کی تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان نیکی کے کسی کلام میں غفلت کر رہا ہو اسے یاد دلانا مشروع ہے کیونکہ غفلت انسان کی گھٹی میں شامل ہے۔
3۔کتاب الاعتصام سے اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بہتر یہی تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کر کے نماز پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ واللہ أعلم۔