باب: اس بارے میں کہ صفیں پوری نہ کرنے والوں پر(کتنا گناہ ہے)
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The sin of a person who does not complete the rows (who is out of alignment) for the prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
735.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ مدینہ تشریف لائے تو ان سے کہا گیا: آپ نے (ہم میں) کون سی منکر بات محسوس کی ہے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہ دیکھی ہو؟ انہوں نے فرمایا: میں اور تو کوئی خلاف ورزی نہیں دیکھتا البتہ تم نماز میں اپنی صفیں درست نہیں کرتے ہو۔ عقبہ بن عبید نے بشیر بن بسیار سے بایں الفاظ یہ روایت بیان کی ہے: حضرت انس ؓ ہم لوگوں کے پاس جب مدینہ تشریف لائے ۔۔ الخ۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دوران نماز میں صف بندی کا وجوب ثابت کیا ہے، کیونکہ حضرت انس ؓ نے صف بندی کے ترک کرنے پر انکار کیا ہے اور انکار کبھی ترکِ واجب پر ہوتا ہے اور کبھی ترکِ سنت پر۔ امام بخاری ؒ نے اس کے ترک کو گناہ سے تعبیر کیا ہے، پھر صف بندی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا امر ہے اور آپ کا امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے ترک پر وعید بھی ہے۔ جیسا کہ سابقہ احادیث سے معلوم ہوچکا ہے۔ گویا صف بندی کے متعلق امرمقرون بالوعید ہے۔ ان تمام قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کا اس کے ترک پر انکار کرنا ترکِ واجب پر انکار کرنا ہے، لیکن یہ ایسا واجب ہے کہ اس کے ترک کرنے پر نماز کا بطلان نہیں ہوگا، کیونکہ حضرت انس ؓ نے ان کے ترک پر انکار کرنے کے باوجود انھیں اپنی نمازیں دوبارہ پڑھنے کے متعلق نہیں کہا۔ اس کے علاوہ حضرت عمر ؓ نے صف بندی کے ترک پر عثمان نہدی کے پاؤں پر درہ مارا تھا۔ اور حضرت بلال ؓ سے بھی ثابت ہے کہ وہ صف بندی نہ کرنے والوں کو مارتے تھے۔ ان تمام آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک دوران نماز میں صف بندی واجب ہے اور اس کے ترک پر انسان گناہ کا مرتکب ہوگا۔ (عمدة القاري:359/4) (2) احادیث میں حضرت انس سے نماز کے متعلق مختلف اوقات میں تین مرتبہ تنبیہ نقل ہوئی ہے:٭حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ ہم نے ظہر کی نماز حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہمراہ ادا کی، اس کے بعد ہم حضرت انس ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ نماز عصر پڑھ رہےتھے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے کون سی نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے فرمایا: یہ نماز عصر ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہم اسی وقت نماز عصر پڑھا کرتے تھے۔ گویا آپ نے تاخیر ظہر پر تنبیہ فرمائی کہ ایسے وقت نہ پڑھی جائے کہ عصر کا وقت آجائے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:549) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ اس وقت امیر مدینہ تھے۔٭حضرت انس ؓ جب بصرے سے مدینہ تشریف لائے تو ان سے لوگوں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے اعتبار سے آپ نے ہمارے ہاں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو اجنبی اور انوکھی ہو؟اس پر انھوں نے فرمایا: اور تو کوئی خاص بات نہیں دیکھی، البتہ تم دوران نماز میں صف بندی نہیں کرتے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 724)٭حضرت انس ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے تو اب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی کوئی بات باقی معلوم نہیں ہوتی۔ عرض کیا گیا نماز تو ہے۔ فرمایا: نماز کا تم نے کیا حشر نہیں کیا، یعنی اس میں بھی تم نے بہت تبدیلیاں کر ڈالی ہیں۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:529) اس روایت کی تفصیل اس طرح ہے کہ امام زہری ؒ دمشق میں حضرت انس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں۔ انھوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: جو باتیں میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں دیکھی تھیں اب ان میں بظاہر نماز رہ گئی ہے، لیکن اسے بھی ضائع کر دیا گیا ہے، یعنی اسے شرعی وقت سے نکال کر مؤخر کرکے ادا کیا جاتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:530)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
716
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
724
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
724
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
724
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ مدینہ تشریف لائے تو ان سے کہا گیا: آپ نے (ہم میں) کون سی منکر بات محسوس کی ہے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہ دیکھی ہو؟ انہوں نے فرمایا: میں اور تو کوئی خلاف ورزی نہیں دیکھتا البتہ تم نماز میں اپنی صفیں درست نہیں کرتے ہو۔ عقبہ بن عبید نے بشیر بن بسیار سے بایں الفاظ یہ روایت بیان کی ہے: حضرت انس ؓ ہم لوگوں کے پاس جب مدینہ تشریف لائے ۔۔ الخ۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دوران نماز میں صف بندی کا وجوب ثابت کیا ہے، کیونکہ حضرت انس ؓ نے صف بندی کے ترک کرنے پر انکار کیا ہے اور انکار کبھی ترکِ واجب پر ہوتا ہے اور کبھی ترکِ سنت پر۔ امام بخاری ؒ نے اس کے ترک کو گناہ سے تعبیر کیا ہے، پھر صف بندی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا امر ہے اور آپ کا امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے ترک پر وعید بھی ہے۔ جیسا کہ سابقہ احادیث سے معلوم ہوچکا ہے۔ گویا صف بندی کے متعلق امرمقرون بالوعید ہے۔ ان تمام قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کا اس کے ترک پر انکار کرنا ترکِ واجب پر انکار کرنا ہے، لیکن یہ ایسا واجب ہے کہ اس کے ترک کرنے پر نماز کا بطلان نہیں ہوگا، کیونکہ حضرت انس ؓ نے ان کے ترک پر انکار کرنے کے باوجود انھیں اپنی نمازیں دوبارہ پڑھنے کے متعلق نہیں کہا۔ اس کے علاوہ حضرت عمر ؓ نے صف بندی کے ترک پر عثمان نہدی کے پاؤں پر درہ مارا تھا۔ اور حضرت بلال ؓ سے بھی ثابت ہے کہ وہ صف بندی نہ کرنے والوں کو مارتے تھے۔ ان تمام آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک دوران نماز میں صف بندی واجب ہے اور اس کے ترک پر انسان گناہ کا مرتکب ہوگا۔ (عمدة القاري:359/4) (2) احادیث میں حضرت انس سے نماز کے متعلق مختلف اوقات میں تین مرتبہ تنبیہ نقل ہوئی ہے:٭حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ ہم نے ظہر کی نماز حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہمراہ ادا کی، اس کے بعد ہم حضرت انس ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ نماز عصر پڑھ رہےتھے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے کون سی نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے فرمایا: یہ نماز عصر ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہم اسی وقت نماز عصر پڑھا کرتے تھے۔ گویا آپ نے تاخیر ظہر پر تنبیہ فرمائی کہ ایسے وقت نہ پڑھی جائے کہ عصر کا وقت آجائے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:549) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ اس وقت امیر مدینہ تھے۔٭حضرت انس ؓ جب بصرے سے مدینہ تشریف لائے تو ان سے لوگوں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے اعتبار سے آپ نے ہمارے ہاں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو اجنبی اور انوکھی ہو؟اس پر انھوں نے فرمایا: اور تو کوئی خاص بات نہیں دیکھی، البتہ تم دوران نماز میں صف بندی نہیں کرتے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 724)٭حضرت انس ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے تو اب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی کوئی بات باقی معلوم نہیں ہوتی۔ عرض کیا گیا نماز تو ہے۔ فرمایا: نماز کا تم نے کیا حشر نہیں کیا، یعنی اس میں بھی تم نے بہت تبدیلیاں کر ڈالی ہیں۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:529) اس روایت کی تفصیل اس طرح ہے کہ امام زہری ؒ دمشق میں حضرت انس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں۔ انھوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: جو باتیں میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں دیکھی تھیں اب ان میں بظاہر نماز رہ گئی ہے، لیکن اسے بھی ضائع کر دیا گیا ہے، یعنی اسے شرعی وقت سے نکال کر مؤخر کرکے ادا کیا جاتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:530)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضل بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن عبید طائی نے بیان کیا بشیر بن یسار انصاری سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے کہ جب وہ ( بصرہ سے ) مدینہ آئے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک اور ہمارے اس دور میں آپ نے کیا فرق پایا۔ فرمایا کہ اور تو کوئی بات نہیں صرف لوگ صفیں برابر نہیں کرتے۔ اور عقبہ بن عبید نے بشیر بن یسار سے یوں روایت کیا کہ انس ؓ ہمارے پاس مدینہ تشریف لائے۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے یہ حدیث لا کر صف برابر کرنے کا وجوب ثابت کیا ہے کیوں کہ سنت کے ترک کو حضرت رسول کریم ﷺ کا خلاف کرنا نہیں کہہ سکتے، اور حضرت رسول کریم ﷺ کے خلاف کرنا بموجب نص قرآنی باعث عذاب ہے۔ ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾(النور:63) تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے سنت کے موافق صفیں برابر کرنا چھوڑ دی ہیں کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ آگے پیچھے بے ترتیب کھڑے ہوتے ہیں کہیں برابر بھی کرتے ہیں تو مونڈھے سے مونڈھا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملاتے۔ بلکہ ایسا کرنے کو نازیبا جانتے ہیں۔ خدا کی مار ان کی عقل اور تہذیب پر۔ نمازی لوگ پروردگار کی فوجیں ہیں۔ فوج میں جو کوئی قاعدے کی پابندی نہ کرے وہ سزائے سخت کے قابل ہوتا ہے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): I arrived at Madinah and was asked whether I found any change since the days of Allah's Apostle. I said, "I have not found any change except that you do not stand in alignment in your prayers."