باب: صف میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To stand shoulder to shoulder and foot to foot in a row)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نعمان بن بشیر صحابی نے کہا کہ میں نے دیکھا ( صف میں ) ایک آدمی ہم میں سے ٹخنہ اپنے قریب والے دوسرے آدمی کے ٹخنہ سے ملا کر کھڑا ہوتا۔
736.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اپنی صفوں کو درست رکھا کرو کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے صف بندی کے متعلق متعدد احادیث پیش کی ہیں اور مذکورہ عنوان اس سلسلے کا آخری عنوان ہے۔ اس میں آپ نے بتایا کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے کندھے سے کندھا، قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑا ہو۔ اس کے متعلق حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت انس ؓ کا بیان نقل ہوا ہے کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔ (2) بعض روایات میں حضرت انس ؓ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ اگر میں آج اپنے ساتھی کے قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ سرکش خچر کی طرح بدکتا اور دور بھاگتا ہے۔ (فتح الباري:274/2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عہد ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس سنت سے غافل ہونے لگے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدم سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بن گیا تھا جس پر حضرت انس ؓ کو اظہار افسوس کرنا پڑا۔ امام محمد ؒ امام نخعی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں: صفیں اور کندھے برابر کرو، انھیں باہم پیوست رکھو کہیں شگافوں سے شیطان دخل اندازی نہ کرے۔ (3) امام محمد ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا بھی اسی پر عمل ہے کہ صف میں کوئی شگاف نہیں چھوڑنا چاہیے تاآنکہ انھیں درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔ (کتاب الآثار للشیباني، باب إقامة الصفوف و فضل الصف الأول:192/1 - 195) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ جب تک صفیں درست نہ ہوجاتیں نماز شروع نہ کرتے۔ عہد فاروقی میں اس کارخیر کے لیے کارندے تعینات تھے مگر آج سب سے زیادہ متروک یہی عمل ہے، حالانکہ یہ کوئی اختلافی نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
717
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
725
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
725
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
725
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس سے مراد سفوں کو درست کرنا،درمیان سے شگاف کو ختم کرنا ہے۔لفظ الزاق بطور مبالغہ ہے،یعنی کندھا یاپاؤں ملانے میں تکلف سے کام نہ لیا جائے جیسا کہ اس مشاہدہ کیا جاتا ہے، چنانچہ احادیث میں ہے کہ صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابر کرو، درمیان میں جگہ نہ چھوڑو، شگاف بند کرو،مبادا شیاطین دخل اندازی کریں۔جو صف کو ملاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے تعلق رکھے گا اور جو صف کو قطع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے تعلق توڑے گا۔حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے امام ابو داود نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:"صفوں کو سیدھا کرو۔"آپ نے تین دفعہ ان الفاظ کو دہرایا:"اللہ کی قسم صفوں کو سیدھا رکھو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں مخالفت پیدا کردے گا۔"حضرت نعمان کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے دیکھا ،آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا ٹخنا اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔(سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث: 662)
اور نعمان بن بشیر صحابی نے کہا کہ میں نے دیکھا ( صف میں ) ایک آدمی ہم میں سے ٹخنہ اپنے قریب والے دوسرے آدمی کے ٹخنہ سے ملا کر کھڑا ہوتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اپنی صفوں کو درست رکھا کرو کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے صف بندی کے متعلق متعدد احادیث پیش کی ہیں اور مذکورہ عنوان اس سلسلے کا آخری عنوان ہے۔ اس میں آپ نے بتایا کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے کندھے سے کندھا، قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑا ہو۔ اس کے متعلق حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت انس ؓ کا بیان نقل ہوا ہے کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔ (2) بعض روایات میں حضرت انس ؓ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ اگر میں آج اپنے ساتھی کے قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ سرکش خچر کی طرح بدکتا اور دور بھاگتا ہے۔ (فتح الباري:274/2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عہد ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس سنت سے غافل ہونے لگے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدم سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بن گیا تھا جس پر حضرت انس ؓ کو اظہار افسوس کرنا پڑا۔ امام محمد ؒ امام نخعی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں: صفیں اور کندھے برابر کرو، انھیں باہم پیوست رکھو کہیں شگافوں سے شیطان دخل اندازی نہ کرے۔ (3) امام محمد ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا بھی اسی پر عمل ہے کہ صف میں کوئی شگاف نہیں چھوڑنا چاہیے تاآنکہ انھیں درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔ (کتاب الآثار للشیباني، باب إقامة الصفوف و فضل الصف الأول:192/1 - 195) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ جب تک صفیں درست نہ ہوجاتیں نماز شروع نہ کرتے۔ عہد فاروقی میں اس کارخیر کے لیے کارندے تعینات تھے مگر آج سب سے زیادہ متروک یہی عمل ہے، حالانکہ یہ کوئی اختلافی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص دورانِ نماز میں اپنا ٹخنا اپنے ساتھ والے آدمی کے ٹخنے سے ملا دیتا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے حمید سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس ؓ سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، صفیں برابر کر لو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ (صف میں) اپنا مونڈھا (کندھا) اپنے ساتھی کے مونڈھے (کندھے) سے اور اپنا قدم (پاؤں) اس کے قدم (پاؤں) سے ملا دیتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام الدین فی الحدیث امام بخاری ؒ نے یہاں متفرق ابواب منعقد فرما کر اور ان کے تحت متعدد احادیث لا کر صفوں کو سیدھا کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلہ کا یہ آخری باب ہے۔ جس میں آپ نے بتلایا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صف میں ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔ جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ کا بیان نقل ہوا کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوا کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان بھی موجو دہے۔ نیز فتح الباری، جلد:2 ص:176 پر حضرت انس ؓ ہی کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ لو فعلت ذلك بأحدهم الیوم لنفر کأنه بغل شموساگر میں آج کے نمازیوں کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اس سے سرکش خچر کی طرح دور بھاگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس درجہ غافل ہونے لگے تھے کہ ہدایت نبوی کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدموں سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بننے لگ گیا تھا۔ جس پر حضرت انس ؓ کو ایسا کہنا پڑا۔ اس بارے میں اور بھی کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔ روی أبوداود و الإمام أحمد عن ابن عمر أنه علیه الصلوٰة والسلام قال أقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات الشیطان من وصل صفا و صله اللہ و من قطع صفا قطعه اللہ و روی البزار بإسناد حسن عنه علیه الصلوٰة و السلام من سد فرجة في الصف غفر اللہ و في أبي داود عنه علیه الصلوٰة والسلام قال خیارکم ألینکم مناکب في الصلوٰة۔یعنی ابوداؤد اور مسند احمد میں عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کو برابر کرو۔ یعنی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو سوراخ دو نمازیوں کے درمیان نظر آئے اسے بند کردو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے گھسنے کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔ یاد رکھو کہ جس نے صف کو ملایا خدا اس کو بھی ملا دے گا اور جس نے صف کو قطع کیا خدا اس کو قطع کرے گا۔ بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کی دراڑ کو بند کیا خدااس کو بخشے۔ ابوداؤد میں ہے کہ تم میں وہی بہتر ہے جو نماز میں کندھوں کو نرمی کے ساتھ ملائے رکھے۔وَعَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُسَوِّي صُفُوفَنَا كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهِ الْقِدَاحَ حَتَّى رَأَى أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا فَقَامَ حَتَّى كَادَ أَنْ يُكَبِّرَ فَرَأَى رَجُلًا بَادِيًا صَدْرُهُ مِنْ الصَّفِّ، فَقَالَ: عِبَادَ اللَّهِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ» رَوَاهُ الْجَمَاعَة إلَّا الْبُخَارِيَّ فَإِنَّ لَهُ مِنْهُ: «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ» وَلِأَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُد فِي رِوَايَة قَالَ: فَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يُلْزِقُ كَعْبَهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ، وَمَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِهِ۔(نیل الأطار ج:3ص:199) یعنی نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔ ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان باہمی طور پر اختلاف ڈال دے گا۔ بخاری شریف میں یوں ہے کہ اپنی صفوں کو بالکل برابر کر لیا کرو۔ ورنہ تمہارے چہروں میں آپس میں اللہ مخالفت ڈال دے گا۔ اور احمد اور ابوداؤد کی روایات میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھے اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخہ ملایا کرتا تھا۔ امام محمد کتاب الآثار باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں: عن إبراهیم أنه کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم تراصوا و لایتخللنکم الشیطان الخ قال محمد و به ناخذ لا ینبغي أن یترك الصف و فیه الخلل حتی یسووا و هو قول أبي حنفیة۔یعنی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔ جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ نیز بحر الرائق و عالمگیری و درمختار میں بھی یہی ہے کہ ینبغي للمأمومين أن یتراصوا و أن یسدو الخلل في الصفوف و یسووا مناکبهم وینبغي للإمام أن یأمرهم بذلك و أن یقف وسطهمیعنی مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو چونا گچ کریں صفوں میں درازوں کو بند کردیں اور شانوں کو ہموار رکھیں بلکہ امام کے لیے لائق ہے کہ مقتدیوں کو اس کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو۔ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کرلیں۔ (شامی، ج:1ص:595) یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، پیر سے پیر ملاکر کھڑا ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود آج کل مساجد میں صفوں کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ہر نمازی دوسرے نمازی سے دور بالکل ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ اچھوتوں سے اپنا جسم دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قدم سے قدم ملانے کی کوشش کی جائے تو ایسے سرک کر الگ ہو جاتے ہیں، جیسے کہ کسی بچھو نے ڈنک ماردی ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملت کے باہمی طور پر دل نہیں مل رہے ہیں۔ باہمی اتفاق مفقود ہے سچ ہے صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق کہ انداز جنوں باقی نہیں ہے عجیب فتوی: ہمارے محترم دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد پوری طرح صفوں کو درست کرنا ہے تاکہ درمیان میں کسی قسم کی کوئی کشادگی باقی نہ رہے۔ (تفہیم البخاری پ:3 ص:108) بالکل درست اور بجا ہے کہ شارع کا یہ مقصد ہے اور لفظ تراصوا کا یہی مطلب ہے کہ نمازیوں کی صفیں چونا گچ دیواروں کی طرح ہونی ضروری ہیں۔ درمیان میں ہرگز ہرگز کوئی سوراخ باقی نہ رہ جائے۔ مگر اسی جگہ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ فقہائے اربعہ کے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہونا چاہئے۔ (حوالہ مذکور) تفصیلات بالا میں شارع کا مقصد ظاہر ہوچکا ہے کہ صف میں ہر نمازی کا دوسرے نمازی کے قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملانا مقصود ہے۔ اکابر احناف کا بھی یہی ارشاد ہے پھر یہ ’’دو آدمیوں کے درمیان چار انگل کے فرق کا فتوی‘‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مطلب رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی قول۔ پھر یہ چار انگل کے فاصلے کی اختراع کیا وزن رکھتی ہے؟ اسی فتویٰ کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ مساجد میں جماعتوں کا عجیب حال ہے۔ چار انگل کی گنجائش پاکر لوگ ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی قدم مل جانے کو انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس پرہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے انصاف پسند و حقیقت شناس علمائے کرام اس صورت حال پر محققانہ نظر ڈال کر اصلاح حال کی کوشش فرما سکیں گے۔ ورنہ ارشاد نبوی آج بھی پکار پکا ر کر اعلان کر رہا ہے۔ "لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللہ بین قلوبکم صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔''یعنی صفیں برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں باہمی اختلاف ڈال دے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Straighten your rows for I see you from behind my back." Anas added, "Every one of us used to put his shoulder with the shoulder of his companion and his foot with the foot of his companion."