صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
78. باب: اگر کوئی شخص امام کے بائیں طرف کھڑا ہو اور امام اپنے پیچھے سے اسے دائیں طرف کر دے تو نماز ہو جائے گی۔
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
78. Chapter: If a person stands by the left side of the Imam, and the Imam dress him to the right from behind, the Salat (prayer) is correct
باب: اگر کوئی شخص امام کے بائیں طرف کھڑا ہو اور امام اپنے پیچھے سے اسے دائیں طرف کر دے تو نماز ہو جائے گی۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If a person stands by the left side of the Imam, and the Imam dress him to the right from behind, the Salat (prayer) is correct)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
737.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے ایک رات نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا، پھر نماز پڑھی اور سو گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ کھڑے ہوئے، نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔
تشریح:
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ معمولی معمولی باریکیوں کا خیال رکھتے ہوئے عنوان قائم کرتے ہیں اور ایک ہی حدیث سے کئی کئی مسائل کا استنباط کرتے ہیں۔ اس حدیث کو پہلے ہی متعدد مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔ اس قسم کا عنوان پہلے بھی معمولی تبدیلی کے ساتھ قائم کیا تھا۔ وہاں مقصد یہ تھا کہ اگر نماز کی اصلاح کے لیے دوران نماز میں کوئی عمل کیا جائے تو اس سے نماز میں کوئی نقص نہیں آتا، پھر یہ بھی وضاحت فرمائی کہ اگر مقتدی غلط مقام پر کھڑا ہوجائے، اسے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا جائے تو بھی اس کی نماز صحیح ہے، کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے معذور ہے، نیز امام اگر مقتدی کو دائیں بائیں کرتے وقت اپنے بدن کے کسی حصے کو ادھر ادھر کرتا ہے تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی، کیونکہ اس نے اپنی صف کو نہیں چھوڑا اور اس نے یہ نقل وحرکت مصلحت نماز کے لیے کی ہے۔ (فتح الباري:274/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
718
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
726
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
726
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
726
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس قسم کا ایک عنوان پہلے (58)بھی گزر چکا ہے صرف فرق حسب ذیل ہے:٭ پہلے عنوان میں خلفه کے الفاظ نہیں تھے جبکہ مذکورہ عنوان میں موجود ہیں۔٭ وہاں عدم فساد صلاۃ کا بیان تھا جبکہ یہاں نماز کے پورا ہونے کا ذکر ہے۔٭ پہلے عنوان میں امام اور مقتدی دونوں کا ذکر تھا جبکہ یہاں ایک کی نماز کا بیان ہے۔اگرچہ بظاہر دونوں ابواب میں تکرار ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں کیونکہ وہاں امام اور مقتدی کا اصل مقام بتانا مقصود تھا تحویل کا مسئلہ ضمنا آگیا تھا اور یہاں تحویل کا مسئلہ بتانا مقصود ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں عمل قلیل وکثیر کا بیان مقصود ہو اور یہاں یہ بتانا چاہتے ہوں کہ نماز پوری ہے اگرچہ نماز کا کچھ حصہ شرعی ترتیب کے خلاف ہوا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نماز سے متعلقہ دو مسئلے بتانا چاہتے ہیں:٭اگر مقتدی اپنے موقف ومقام کو چھوڑ کر غلط مقام پر کھڑا ہوجائے تو حنابلہ کے نزدیک اس کی نماز فاسد ہے جبکہ دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ ایسا جہالت کی وجہ سے ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید میں پہلا عنوان قائم کیا اور اس سلسلے میں حدیث ابن عباس پیش فرمائی۔٭مقتدی کو کسی صورت میں امام کے آگے نہیں ہونا چاہیے۔اگر ضرورت پڑے تو اسے پیچھے سے کھینچ کر لائے۔اگر مقتدی کو آگے سے لائے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے ایک رات نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا، پھر نماز پڑھی اور سو گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ کھڑے ہوئے، نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ معمولی معمولی باریکیوں کا خیال رکھتے ہوئے عنوان قائم کرتے ہیں اور ایک ہی حدیث سے کئی کئی مسائل کا استنباط کرتے ہیں۔ اس حدیث کو پہلے ہی متعدد مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔ اس قسم کا عنوان پہلے بھی معمولی تبدیلی کے ساتھ قائم کیا تھا۔ وہاں مقصد یہ تھا کہ اگر نماز کی اصلاح کے لیے دوران نماز میں کوئی عمل کیا جائے تو اس سے نماز میں کوئی نقص نہیں آتا، پھر یہ بھی وضاحت فرمائی کہ اگر مقتدی غلط مقام پر کھڑا ہوجائے، اسے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا جائے تو بھی اس کی نماز صحیح ہے، کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے معذور ہے، نیز امام اگر مقتدی کو دائیں بائیں کرتے وقت اپنے بدن کے کسی حصے کو ادھر ادھر کرتا ہے تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی، کیونکہ اس نے اپنی صف کو نہیں چھوڑا اور اس نے یہ نقل وحرکت مصلحت نماز کے لیے کی ہے۔ (فتح الباري:274/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے داؤد بن عبدالرحمن نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس ؓ سے، آپ نے بتلایا کہ ایک رات میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ (آپ کے گھر میں تہجد کی) نماز پڑھی۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنے دائیں طرف کر دیا۔ پھر نماز پڑھی اور آپ سو گئے جب مؤذن (نماز کی اطلاع دینے) آیا تو آپ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے اور وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
سو جانے پر بھی آپ ﷺ کا وضو باقی رہتا تھا۔ اس لیے کہ دل جاگتا اور ظاہر میں آنکھیں سو جاتی تھیں۔ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): I prayed with the Prophet (ﷺ) one night and stood on his left side. Allah's Apostle (ﷺ) caught hold of my head from behind and drew me to his right and then offered the prayer and slept. Later the Mu'adh-dhin came and the Prophet (ﷺ) stood up for prayer without performing ablution.