تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے بے ہنگم قیل وقال میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے عنوانات کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ٹھوس ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں رفع الیدین سے متعلق دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ ہم بھی ان کا طریقہ اپناتے ہوئے اس سلسلے میں مزید چند احادیث کا حوالہ دیتے ہیں تاکہ قاری کو اس سنت پر عمل کرنے میں سہولت رہے:٭حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے او جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور کہتے تھے رسول اللہ ﷺ بھی نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي، الصلاة:2/73)٭ سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز کا طریقہ بتانے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، پھر اللہ أکبر کہا۔ اس کے بعد رکوع کیا اور اسی طرح ہاتھوں کو بلند کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر بھی رفع الیدین کیا۔ (الخلافیات للبیهقي بحوالہ نصب الرایة:2/415)٭حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے شروع میں، رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور دورکعت پڑھ کر کھڑا ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:744) ٭حضرت ابو حمید ساعدی ؓ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دورکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا تم سچ بیان کرتے ہو، واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:304) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجمع میں حضرت ابو قتادہ، سہل بن سعد ساعدی ؓ اور ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہم موجود تھے۔(صحیح ابن خزیمة:298/2) امام محمد بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:2/298)٭ حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر اپنے ہاتھ کپڑے میں ڈھانپ لیتے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے۔ جب رکوع کرنے لگتے تو ہاتھ کپڑوں سے باہر نکالتے، اللہ أکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے۔جب رکوع سے اٹھتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور رفع الیدین کرتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:896(401)) واضح رہے کہ حضرت وائل بن حجر ؓ یمن کے رہنے والے تھے، 9 اور 10 ہجری میں دو دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ 10ہجری تک رفع الیدین کرتے تھے۔11 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی، لہٰذا آخر عمر تک رفع الیدین کرنا ثابت ہوا ۔٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دن لوگوں سے فرمایا:کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں؟اس کے بعد انھوں نے نماز پڑھی۔ جب تکبیر تحریمہ کہی تو رفع الیدین کیا، پھر جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور تکبیر کہی، پھر سمع الله لمن حمده کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، اس کے بعد فرمایا کہ اسی طرح کیا کرو۔ (سنن الدار قطني:1/291، حدیث:1292، طبع دارالمعرفة، بیروت) ٭حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شروع نماز میں، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:738) واضح رہے کہ بعض روایات کے مطابق حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت ابو حمیدی ساعدی ؓ کی رفع الیدین کے متعلق تصدیق کرنے والوں میں ہیں جبکہ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں اسے بیان کیا تھا۔ (فتح الباري:397/2)٭ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:868) (2) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کو بیان کرنے والے مندرجہ ذیل صحابہ ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن عمر٭حضرت مالک بن حویرث٭حضرت ابو بکر صدیق٭حضرت عمر فاروق٭حضرت علی٭حضرت ابو حمید ساعدی٭حضرت وائل بن حجر٭حضرت ابو موسیٰ اشعری٭حضرت ابو ہریرہ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم۔ ان کے علاوہ حضرت سہل بن سعدساعدی٭ابو اسید ساعدی اور محمد بن مسلمہ٭حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم حضرت ابو حمید ساعدی کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں۔ حدیث متواتر کی تعریف یہ ہے کہ جسے کم از کم دس راوی بیان کریں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں۔ اس بنا پر رفع الیدین کا اثبات قطعئ الثبوت ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں، نیز الکتانی، ابن جوزی، حافظ ابن حجر، ابن حزم، سیوطی، العراقی، سخاوی اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ ہم نے رفع الیدین کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔ والله المستعان۔ امام بخاری ؒ نے اس سنت متواترہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک مستقل رسالہ جزء رفع الیدین بھی لکھا ہے جو استاذی المکرم شاہ بدیع الدین راشدی ؒ کی تحقیق وتخریج سے مطبوع ومتداول ہے۔