باب: اس بارے میں کہ عورت اکیلی ایک صف کا حکم رکھتی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: One woman can form a row)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
738.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اور ہمارے گھر میں رہنے والے ایک یتیم لڑکے نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ میری والدہ ام سلیم ہم سب کے پیچھے تھیں۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ دراصل ایک مرفوع حدیث کے الفاظ ہیں۔ جیسے امام ابن عبدالبرؒ نے روایت کیا ہے اکیلی عورت، مستقل صف کا حکم رکھتی ہے۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ اگر نماز کے لیے صرف امام اور ایک عورت ہو تو عورت کو امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ ایسے حالات میں عورت کو اکیلے کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ پیش کردہ حدیث میں حضرت ام سلیم ؓ اکیلی کھڑی ہوئی تھیں۔ اسی طرح اگر مقتدی دو ہوں تو انھیں امام کے پیچھے صف بنانا ہو گی، جبکہ بعض اہل کوفہ کا موقف ہے کہ ایک امام کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب ہو گا۔ ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا عمل ہے کہ انھوں نے ایک دفعہ جماعت کراتے وقت حضرت علقمہ کو دائیں جانب اور حضرت اسود کو اپنی بائیں جانب کھڑا کیا تھا۔ اس کا جواب امام ابن سیرین نے دیا ہےکہ انھوں نے ایسا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کیا تھا۔ عام حالات میں ایسا کرنا صحیح نہیں، جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے ۔(فتح الباري:275/2) (2) عورت چونکہ مرد کے لیے باعث فتنہ ہے، اس لیے اسے نماز باجماعت کے وقت مردوں کے ساتھ، یعنی ان کے برابر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں۔ اگر وہ مخالفت کرتے ہوئے ان کے برابر کھڑی ہوجائے تو اسے گناہ تو ضرور ہوگا، لیکن اس کی نماز ہوجائے گی۔ احناف کے نزدیک اگر نماز میں عورت، مرد کے برابر آگئی تو مرد کی نماز باطل ہوجائے گی، البتہ عورت کی نماز درست ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے:’’جب انھیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر رکھا ہے تو تم بھی انھیں ہر معاملہ میں مؤخر رکھو۔‘‘ احناف کی یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کا بودا پن واضح ہے۔ ایک طرف مرد کی نماز کو باطل اور عورت کی نماز کو درست کہتے ہیں، حالانکہ برابر آنے کا فعل عورت کا ہے اور حکم کی مخالفت کرنے والی بھی عورت ہے جبکہ اس سےملتے جلتے مسئلے میں ابطال صلاۃ کا حکم نہیں لگاتے، مثلاً: کیونکہ حدیث میں غصب کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، اگر کوئی اس کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لے تو گناہ گار ہونے کے باوجود احناف کے نزدیک بھی اس کی نماز ہوجائے گی۔ (فتح الباري:275/2) (3) بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک حدیث کے عموم کو خاص کیا ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’صف کے پیچھے اکیلے کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اس حدیث کے عموم سے ایک استثنائی صورت کو الگ کیا گیا ہے کہ یہ حدیث صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ اکیلی عورت مردوں کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے۔ (فتح الباري:276/2)والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
719
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
727
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
727
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
727
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اور ہمارے گھر میں رہنے والے ایک یتیم لڑکے نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ میری والدہ ام سلیم ہم سب کے پیچھے تھیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ دراصل ایک مرفوع حدیث کے الفاظ ہیں۔ جیسے امام ابن عبدالبرؒ نے روایت کیا ہے اکیلی عورت، مستقل صف کا حکم رکھتی ہے۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ اگر نماز کے لیے صرف امام اور ایک عورت ہو تو عورت کو امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ ایسے حالات میں عورت کو اکیلے کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ پیش کردہ حدیث میں حضرت ام سلیم ؓ اکیلی کھڑی ہوئی تھیں۔ اسی طرح اگر مقتدی دو ہوں تو انھیں امام کے پیچھے صف بنانا ہو گی، جبکہ بعض اہل کوفہ کا موقف ہے کہ ایک امام کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب ہو گا۔ ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا عمل ہے کہ انھوں نے ایک دفعہ جماعت کراتے وقت حضرت علقمہ کو دائیں جانب اور حضرت اسود کو اپنی بائیں جانب کھڑا کیا تھا۔ اس کا جواب امام ابن سیرین نے دیا ہےکہ انھوں نے ایسا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کیا تھا۔ عام حالات میں ایسا کرنا صحیح نہیں، جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے ۔(فتح الباري:275/2) (2) عورت چونکہ مرد کے لیے باعث فتنہ ہے، اس لیے اسے نماز باجماعت کے وقت مردوں کے ساتھ، یعنی ان کے برابر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں۔ اگر وہ مخالفت کرتے ہوئے ان کے برابر کھڑی ہوجائے تو اسے گناہ تو ضرور ہوگا، لیکن اس کی نماز ہوجائے گی۔ احناف کے نزدیک اگر نماز میں عورت، مرد کے برابر آگئی تو مرد کی نماز باطل ہوجائے گی، البتہ عورت کی نماز درست ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے:’’جب انھیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر رکھا ہے تو تم بھی انھیں ہر معاملہ میں مؤخر رکھو۔‘‘ احناف کی یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کا بودا پن واضح ہے۔ ایک طرف مرد کی نماز کو باطل اور عورت کی نماز کو درست کہتے ہیں، حالانکہ برابر آنے کا فعل عورت کا ہے اور حکم کی مخالفت کرنے والی بھی عورت ہے جبکہ اس سےملتے جلتے مسئلے میں ابطال صلاۃ کا حکم نہیں لگاتے، مثلاً: کیونکہ حدیث میں غصب کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، اگر کوئی اس کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لے تو گناہ گار ہونے کے باوجود احناف کے نزدیک بھی اس کی نماز ہوجائے گی۔ (فتح الباري:275/2) (3) بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک حدیث کے عموم کو خاص کیا ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’صف کے پیچھے اکیلے کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اس حدیث کے عموم سے ایک استثنائی صورت کو الگ کیا گیا ہے کہ یہ حدیث صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ اکیلی عورت مردوں کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے۔ (فتح الباري:276/2)والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے انس بن مالک ؓ نے بتلایا کہ میں نے اور ایک یتیم لڑکے (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے جو ہمارے گھر میں موجود تھا، آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ ام سلیم اکیلی تھیں مگر لڑکوں کے پیچھے اکیلی صف میں کھڑی ہوئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): One night an orphan and I offered the prayers behind the Prophet (ﷺ) in my house and my mother (Um Sulaim) was standing behind us (by herself forming a row).