تشریح:
1۔اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعب احبار سے ملے تو آپ نے ان سے فرمایا: ہم بنو ہاشم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ بات سن کر کعب احبار نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا شرف ودیدار اوراعزاز گفتگو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ دو دفعہ ہم کلام ہوا ہے اور حضر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور عرض کی: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھاہے؟ تو انھوں نے مذکورہ حدیث بیان فرمائی۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3278)
2۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا انکار کسی مرفوع حدیث کی بنیاد پر نہیں کیا۔اس سلسلے میں انھوں نے صرف اجتہاد پر اکتفا کیا ہے جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کے خلاف موقف منقول ہے۔ جب کوئی صحابی بات کہے اور دوسرا مخالفت کرے تو بالاتفاق حجت نہیں ہوتی۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ پر تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق ایسی بات کیوں کہی، حالانکہ صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سن کر حضرت مسروق نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اس نے اس روشن افق پر دیکھا ہے۔‘‘ (التکویر 23) نیز فرمایا: ’’ایک مرتبہ اور بھی اس نے اسے دیکھا۔‘‘ (النجم 13/53) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 439(177) صحیح مسلم کی سند کے ساتھ ابن مردودیہ نے مزید نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: میں نے سب سے پہلے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، میں نے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اترتے ہوئے دیکھا۔‘‘ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 116/1) حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 443(178) سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’آپ نے جو دیکھا دل نے اس کی تکذیب نہیں کی۔‘‘ (النجم11/53) مزید فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا تھا۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث: 3281) ہمارے رجحان کے مطابق سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس صراحت کے بعد وجہ اختلاف از خود ختم ہو جاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا موقف ہی مبنی برحقیقت معلوم ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں یہ وضاحت ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو (اس دنیا میں) ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا، البتہ عالمِ آخرت میں اہل جنت اپنے رب کےدیدار سے ضرور فیض یاب ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔‘‘ (القیامة: 23/75) احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔آمین یارب العالمین۔
3۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصا ہے، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسا علم حاصل نہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ ان سے کہہ دیں: میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں۔‘‘ (الأنعام 50) نیز فرمایا: ’’اگرمیں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔‘‘ (الأعراف: 188/7) ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا۔ البتہ اگر بذریعہ وحی کچھ غیب کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادی گئی ہوں تو وہ اس موضوع سے خارج ہیں۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ غیب دان ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے ایسے رسول کے سے جسے وہ (کوئی غیب کی بات بتانا) پسند کرے، پھر وہ اس (وحی) کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے۔‘‘ (الجن 26۔27) علامات قیامت، امورآخرت، حشر نشر، حساب کتاب اور جنت دوزخ سے متعلقہ حقائق غیب سے تعلق رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیے اور انھوں نے ان کو اُمت تک پہنچا دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے انھیں نہ تو آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم کو ان کا علم تھا۔‘‘ (ھود 49) اس بات پر اہل علم کاا تفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا مگرجو بات اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیتا وہ معلوم ہو جاتی، چنانچہ ابن اسحاق نے اپنی تالیف "مغازی" میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی تو ابن صلیت کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود کو پیغمبر کہتے ہیں اور آسمان کے حالات تم سے بیان کرتے ہیں لیکن انھیں اپنی اونٹنی کے متعلق معلومات نہیں ہیں کہ وہ کہاں ہے؟ یہ بات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فلاں شخص ایسی ایسی بات کہتا ہے، اللہ کی قسم! میں تو وہی بات جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے بتلا دیتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹنی کے متعلق بتلا دیا ہے کہ وہ فلاں گھاٹی میں ایک درخت سے اٹکی ہوئی ہے۔‘‘ آخر کار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وہاں گئے اورآپ کی نشاندہی سے اسے لے آئے۔ (فتح الباري: 445/13)
4۔ہمارے ہاں کچھ غالی قسم کے عقیدت مند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو (مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ) کا علم تھا۔ ایسا عقیدہ سراسر غلط اور قرآن وسنت کے بالکل ہی خلاف ہے۔ اسی طرح کچھ شعبدہ باز اور مداری قسم کے لوگ بھی علم غیب رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کچھ کشف والہام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس قسم کے دعوؤں کی کیا حقیقت ہے؟ مثلاً: ایک نجومی، جوتشی جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر لوگوں کی قسمت کا حال بتاتا ہے اور مختلف طریقوں سے لوگوں کو غیب کی خبریں دیتا ہے اگر وہ یہ علم جانتا ہوتا تو کیا اس کم بخت کی یہ حالت زار ہو سکتی تھی؟ کیا وہ چند دنوں میں امیر کبیر نہ بن سکتا تھا؟ کچھ صوفی حضرات کشف قبور کے قائل ہیں اور کچھ استخارے کے ذریعے سے چوری وغیرہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ شریعت میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہرحال غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور جو اس کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا اور کذاب ہے۔