تشریح:
1۔اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہرآواز کو سن رہا ہے۔ وہ اس قدر دور نہیں کہ اسے بآواز بلند پکارنے کی ضرورت پیش آئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو (انھیں کہہ دو کہ )میں قریب ہوں۔ پکارنے والی کی دعا قبول کرتا ہوں وہ جب بھی مجھے پکارے۔‘‘ (البقرہ:186) آواز کیا چیز ہے وہ تو دل کی بات اور آنکھ کی خیانت کو جانتا ہے اسی لیے فرمایا: تم سب کچھ سننے والے دیکھنے والے اور انتہائی قریب رہنے والے کو پکارتے ہو۔ بندہ بھی ان صفات سے متصف ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم نے اسے (انسان کو) خوب سننے والا دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘ (الدہر76۔2) لیکن بندے کے سمع اور بصر ناقص ہیں جو دور سے سن نہیں سکتا بلکہ قریب بھی اگر پردہ یا اوٹ حائل ہو تو اس کی سماعت و بصارت کام نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ کامل پر ان صفات سے متصف ہے اس کی سمع سے کوئی حرکت فوت نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی پوشیدہ ہو۔ وہ رات کے اندھیرے میں سفید پتھر پر چلنے والی چیونٹی کے قدموں کی آہٹ کو سنتا ہے بلکہ اس سے بھی مخفی چیزوں کو سنتا ہے۔ سانس کی آمدو رفت سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اسے بھی سنتا ہے جبکہ خود انسان اسے نہیں سن سکتا۔ اس کی بصر کائنات کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھتی ہے۔ اتنا انسان کسی انسان کے قریب نہیں جتنا اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم تو اس کی شاہ رگ (رگ جان) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘ (ق:50۔16)
2۔ واضح رہے کہ یہ قرب علم اور قدرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ذات باری تعالیٰ مستوی علی العرش ہے۔ بعض جہلاء نے اس قسم کی آیات سے یہ فلسفہ کشید کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ بذات خود موجود ہے پھر انھوں نے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود جیسی ناپاک اصطلاحات بنا ڈالیں۔ کچھ لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھا دیا کہ حضرات ا نبیاء علیہم السلام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہر جگہ موجود ہیں اور لوگوں نے اپنے پیروں اور مرشدوں کے ہر جگہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بحث کریں گے۔
3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی مذکورہ صفات کے پیش نظر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: تم اپنے آپ پر رحم کرو اور ترس کھاؤ۔ نعرہ تکبیرکہتے وقت اپنی آوازوں کو اس قدر اونچا کرنے کا تکلف نہ کرو۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جس ذات کی تم کبریائی اورتسبیح بیان کرتے ہو وہ سمیع اور بصیرہے۔ وہ اللہ پوشیدہ آواز کو بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح اونچی آواز کو سنتا ہے اور مخفی اشیاء کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح سر عام پڑی چیز کو دیکھتا ہے۔ اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 191/1)