تشریح:
(1) دوسری رکعت سے فراغت کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہواہے۔ عام طور پر حضرت ابن عمر ؓ سے رفع الیدین کے متعلق ان کے دو شاگرد بیان کرتے ہیں: ایک ان کے بیٹے حضرت سالم اور دوسرے ان کے تلمیذِ خاص حضرت نافع۔ حضرت سالم کی روایت میں دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کی نفی اور حضرت نافع کی روایت میں دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا اثبات ہے۔ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کہ تطبیق دی جائے بلکہ نافع کی رویت میں ایک اضافہ، یعنی دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا جس کی نفی حضرت سالم کی روایت میں نہیں بلکہ حضرت سالم بھی بعض اوقات اس کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ امام بخاری ؒ نے جزء رفع الیدین میں اسے بیان کیا ہے۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:78) نیز ابن حبان نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان(الإحسان) ذکرمایستحب للمصلي رفع الیدین……3/178،177، حدیث:1874) حضرت ابن عمر ؓ سے ان کے شاگرد حضرت نافع کے علاوہ حضرت محارب بن دثار بھی اس مقام پر رفع الیدین کو بیان کرتے ہیں۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:26) حضرت علی ؓ کی روایت میں بھی اس رفع الیدین کا ذکر ہے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب رفع الیدین عندارادة……1/295، 294، حدیث:584) اس کے علاوہ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ بھی بیان کرتے ہیں۔ (جزءرفع الیدین حدیث:3) امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر، حضرت علی اور حضرت ابو حمیدی ساعدی رضی اللہ عنہم نے دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت جو رفع الیدین بیان کیا ہے وہ صحیح اور ثابت ہے، کیونکہ ان حضرات نے صرف ایک نماز کی کیفیت کو بیان نہیں کیا جس میں انھوں نے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اختلاف کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک راوی نے نماز کے متعلق ایک اضافی بات سے ہمیں آگاہ کیا ہے جس پر دوسرے حضرات مطلع نہیں ہوسکے۔ اس طرح کا اضافہ اہل علم کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔ (جزءرفع الیدین، ص:178)
(2) امام ابن خزیمہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر رفع الیدین کرنا سنت ہے اگرچہ امام شافعی کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا، تاہم اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اور امام شافعی نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ سنت پر عمل کرو اور اس کےمقابلے میں میری بات کو چھوڑ دو۔ اسی طرح ابن بطال اور علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ایک ایسا اضافہ ہے جس کا قبول کرنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:288/2)
(3) ائمۂ اربعہ کے متعلق خدمت اسلام کا اعتراف کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا ہے کہ حق صرف ان چار اماموں میں منحصر نہیں، کیونکہ مذکورہ سنت (دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین) کے متعلق ان چار ائمہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل یا فاعل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ امام بخاری ؒ پر اپنی رحمتیں برسائے کہ انھوں نے اس کے متعلق عنوان قائم کرکے ہمیں اس حقیقت سے آگاہ فرمایا۔ والله أعلم۔ اگرچہ امام بخاری ؒ کے اسلوب کے مطابق ہم قیل وقال میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن ایک جاہلانہ بات کا جواب دینا ہم ضروری خیال کرتے ہیں جس کا تعلق اہل علم سے نہیں بلکہ عامۃ الناس سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بعض لوگ نماز پڑھتے وقت اپنی بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے، اس لیے رفع الیدین کا حکم دیا گیا جسے بعد میں منسوخ کردیا گیا، حالانکہ نماز کے دوران بغلوں میں بت چھپانے کا دعویٰ خود ساختہ اور بلا دلیل ہے جس کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ کسی ضعیف اور من گھڑت روایت سے بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا، تاہم اس کے متعلق ہمارے ملاحظات حسب ذیل ہیں:٭ بت پرستی مکہ مکرمہ میں تھی لیکن نماز باجماعت نہیں تھی، مدینہ منورہ میں جماعت فرض ہوئی لیکن مدینہ منورہ میں بت پرستی نہیں تھی، مدینہ میں جو لوگ بغلوں میں بت لے کر آئے تھے وہ کون تھے؟٭اگر بتوں کو گرانا مقصود تھا تو تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین اس مقصد کے لیے کافی تھا،پھر رکوع اور سجدے کی حالت میں بھی بت گر سکتے تھے، اس کے لیے الگ رفع الیدین جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر اگر بت گرانا مقصود تھا تو پہلی رکعت ہی میں ان کا صفایا ہوجاتا تھا، ہر رکعت میں یہ عمل کیوں دہرایا جاتا رہا؟٭اگر منافقین یہ کام کرتے تھے تو ان کی عقل کا ماتم کرنا چاہیے، کیونکہ وہ انھیں اپنی جیبوں میں لانے کے بجائے بغلوں میں دبا کر لاتے تھے۔٭اس قسم کی جاہلانہ بات کو رواج دینے والوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب جانتے تھے۔ اگر آپ واقعی عالم الغیب تھے تو رفع الیدین کے بغیر ہی ان کی حرکت کا نوٹس لیا جاسکتا تھا۔٭رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کے حاکم اور فرمانرواتھے، کیا وہ اس قدر کمزور تھےکہ ایسے لوگوں کے خلاف علانیہ کارروائی کرنے کے بجائے انھیں نماز میں رفع الیدین پر لگانا پڑا؟٭ ہمارا اس کہانی کو رواج دینے والوں سے سوال ہے کہ اگر رفع الیدین کرتے وقت منافقین کی بغلوں سے بت گرتے تھے تو انھیں کیا سزا دی گئی؟دراصل یہ افسانہ خود تراشیدہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں دو تعلیقات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ان میں دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت نافع حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے اس روایت کو موقوف نقل کرتے ہیں جبکہ حضرت سالم اسے مرفوع بیان کرتے ہیں۔ حماد بن سلمہ کی تعلیق کو امام بخاری ؒ نے خود جزء رفع الیدین میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:54،53) جبکہ ابراہیم بن طہمان کی تعلیق کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے موصولا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:289/2)