تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت اس طرح قسم اٹھاتے تھے۔(لا، وَمُصَرّف القلوب)"دلوں میں تصرف کرنے والے کی قسم۔" (سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث :2092) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ قلب کے جتنے اعمال ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں مثلاً : دل کا ارادہ کرنا اس میں کسی خواہش کا پیدا ہونا نیز ایک حالت سے دوسری حال کی طرف پھرنا وغیرہ۔ (فتح الباري:642/11)
2۔قلب کو قلب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بکثرت ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھرتا رہتا ہے اگرچہ دل کا پھرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی۔ ’’بنو آدم کے تمام دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں گویا وہ ایک دل کی طرح ہیں اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے انھیں پھیرتا رہتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہتے"اے دلوں کو پھیرنے والے!ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6750)(2654)
3۔ دلوں کو پھیرنے کی صفت فعلی ہے جس کا مرجع قدرت ہے فعلی صفات نوعیت کے لحاظ سے قدیم ہیں لیکن بندے سے تعلق کے اعتبار سے حادث ہیں اللہ تعالیٰ ازل ہی سے اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے خالق ہے اس کے سوا ہر چیز مخلوق ہے۔ اس کی صفات میں کوئی صفت مخلوق یا حادث نہیں ہے البتہ فعلی صفات کا بندے سے تعلق حادث ہوتا ہے صفات فعلی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوتی ہیں۔ بہر حال مذکورہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کے دلوں کا مالک ہے انھیں جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے پھیرنے کا ختیار رکھتا ہے۔ کوئی بھی اس صفت میں اس کا شریک نہیں۔ کائنات میں کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بندہ ہر آن اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ایک لمحے کے لیے بھی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور توفیق ہدایت نہ ملے تو دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور آخرت میں سخت ترین عذاب میں گرفتار ہو گا اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ پراٹل ہے کہ بندہ بااختیار اور مکلف ہے اور اسی ارادے واختیار پر قیامت کے دن جز اوسزا مرتب ہو گی۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 214/1)