تشریح:
1۔بنولحیان نے ان دس جاں نثار کو اپنے گھیرے میں لے کر سات کو شہید کر دیا اور تین کو قید کرکے لے گئے۔ ان قیدیوں میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جنھیں بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک انھیں قید رکھنے کے بعد شہید کیا۔ اس واقعے کی تفصیل خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں بیان کی ہے۔ (صحیح البخار، المغازي، حدیث: 4086)
2۔اس حدیث میں لفظ ذات اللہ کے اسم مبارک کے ساتھ بطور مضاف استعمال ہوا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا، اگر غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار کر دیتے، اسی طرح احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں صرف تین دفعہ خلاف واقعہ بات کی، ان میں سے دو مرتبہ تواللہ کی ذات کے متعلق تھی۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء علیہم السلام، حدیث: 3358) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرچیز کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے غوروفکر کرو لیکن اللہ کی ذات کے متعلق اس انداز سے غوروخوض نہ کرو۔ اس کی سند بھی جید ہے۔ (الأسماء والصفات للبیهقي: 420 و سلسلة الأحادیث الصحیحة: 346/4) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل اسلام اس مومن کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اورافضل جہاد اس شخص کا ہے: (منْ جاهَدَ نَفْسَهُ فِي ذاتِ اللّٰہ) ’’جس نے اللہ کی ذات کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔۔۔‘‘ (بدائع الفوائد: 7/2)
3۔حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذات کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی صفات ہوں، پھر اسے ان صفات کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔ نحوی حضرات نے اگرچہ یہ اعتراض کیا ہے کہ لفظ ذات معرفہ استعمال نہیں ہوتا، تاہم اسے کسی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے معرفہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ متکلمین کی اپنی اصطلاح ہے جس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 243/1) بہر حال لفظ ذات کا استعمال باری تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور اس سے مراد نفس شے کا بیان ہے، یعنی بذات خود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات اور صفات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 470/13) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ آیت کریمہ میں نفس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 199/14)