تشریح:
1۔آدمی کے لیے یہ عیب اور نقص ہے کہ وہ اپنی تعریف خود کرے یا کسی دوسرے سے اپنی تعریف پسند کرے لیکن اللہ تعالیٰ کے حق میں یہ عیب نہیں کیونکہ وہ تعریف کے لائق ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی کماحقہ اس کی تعریف نہیں کر سکتا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! میں تیری اس طرح تعریف نہیں کرسکتا جس قدر تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3566)
2۔اس حدیث کے عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انھوں نے کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود کی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4634) اس روایت میں نفس کا اطلاق پروردگار پر ہوا ہے۔ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ روایت پرغور نہیں کیا بلکہ وہ اسے بھول گئے ہیں، اس لیے انھوں نے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی کہ اس روایت میں "احد" کا لفظ نفس کی طرح ہے۔ (فتح الباري: 470/13) کتاب التفسیر میں مروی روایت میں ذات باری تعالیٰ کے لیے لفظ نہیں نفس کا استعمال ہوا ہے، اس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی صفات کے بغیر صرف اذیت مراد لی ہے یا ان کے نزدیک اس سے مراد صرف صفت باری تعالیٰ ہے، یہ دونوں باتیں حقیقت کے خلاف ہیں۔ (مجموع الفتاویٰ: 292/9)