تشریح:
1۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرا بندہ میرے متعلق یہ گمان رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں تو اس کے گمان کے مطابق بندے کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہوں اور اگرمیرے متعلق اس کے برعکس یہ گمان رکھتا ہے کہ میں اسے سزا دوں تو میں اسے سزا دیتا ہوں۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ خوف کی بجائے امید کا پہلو غالب رہنا چاہیے۔ (فتح الباري: 472/13)
2۔اس حدیث میں بھی لفظ نفس کو ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق اگر ہندہ پوشیدہ طور پر اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس مجلس سے اعلیٰ اور افضل مجلس میں اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے معزز فرشتے ہیں جواللہ تعالیٰ کی لمحہ بھر بھی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہی کچھ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ بندے کی طرف سے بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اپنے آپ کو بڑا اونچا خیال کرے اور اپنے رب کو فراموش کردے، اس کے برعکس جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر خود کو گرا دیتا ہے تو اس سجدے کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بہت قریب ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے، جس قدر بندہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے گا اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا۔ اگرچہ اس کا بدن زمین پر ہوتا ہے لیکن اس کا دل اللہ تعالیٰ کےقرب وجوار میں پہنچ جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے قریب ہونے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ دونوں اپنے بدن سے حرکت کریں بلکہ ایک کا دوسرے سے قریب ہونا اس بات کو لازم ہے کہ دوسرا بھی اس کے قریب ہو جائے جیسا کہ انسان جب مکے کے قریب پہنچ جاتا ہے تو یوں کہا جاتا ہے کہ مکہ اس کے بالکل قریب آگیا ہے۔ بہرحال اس قسم کے قرب کے لیے دونوں جانب سے حرکت ضروری نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 269/1)
3۔مختلف احادیث کے پیش نظر بندے سے اللہ تعالیٰ کے قرب کی دو قسمیں ہیں:©۔ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے دلوں کے قریب ہونا اور اہل ایمان کے دلوں کا اللہ تعالیٰ کےقریب ہونا۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دلوں میں جس قدر ایمان، معرفت الٰہیہ اور اللہ تعالیٰ کی خشیت ہوگی اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی منازل طے کریں گے۔ ©۔ اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص قرب معلوم ہوتا ہے جس طرح عرفہ کے دن اور ہررات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے۔ یہ ایسا قرب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی رہتے ہوئے بندوں کے قریب ہو جاتا ہے جہمیہ، معتزلہ اور اشاعرہ اس قرب خاص کا انکار کرتے ہیں اور ان کے انکار کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 270/1)