تشریح:
1۔اس حدیث میں (هَذَا الأَمرُ) سے مراد کائنات کی ہر وہ چیز ہے جس کا روز مرہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں یعنی اہل یمن نے مشاہدات کائنات کے متعلق سوال کیا تھا کہ اس کا مبدا کیا ہے؟ سوال کے ظاہری مفہوم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔ (فتح الباری: 346/6) اگرچہ انھوں نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ جنس مخلوقات میں سے پہلی مخلوق کے متعلق سوال تھا لیکن جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ احتمال بہت بعید ہے کیونکہ اس حدیث میں زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے حالانکہ ایک حدیث کے مطابق پہلےاللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے لکھنے کا حکم دیا۔ اس نے عرض کی: کیا لکھوں؟ حکم ہوا قیامت تک پیدا ہونے والی ہر چیزکی تقدیر لکھ دے۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700) نیز ایک دوسری حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزارسال پہلے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تقدیر لکھ دی تھی اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم، القدر ، حدیث: 6748(2653) اللہ تعالیٰ کا عرش اور پانی دونوں اللہ تعالیٰ کے پیدا کیےہوئے ہیں جو تقدیریں لکھتے وقت موجود تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ (ھود 11۔7)
2۔اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہو چکی تھی اور زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر موجود تھا تخلیق کے بعد یہ عرش ساتوں آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔ زمین و آسمان کی پیدائش کا مادہ دھواں تھا جو اس وقت موجود پانی سے بخارات کی شکل میں جمع تھا۔ اس کا اشارہ سورہ حم السجدہ آیت :11 میں ہے پھر اس دھویں کو پھاڑ کر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان سورج چاند اور ستارے وغیرہ بنائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’بے شک تمام آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انھیں پھاڑ کر الگ الگ کیا۔‘‘ (الأنبیاء:21۔30)
3۔ اس حدیث سے مقصود اللہ تعالیٰ کےعرش کی عظمت اور رفعت و بلندی شان کو بیان کرنا ہے کہ اس کی قدر و منزلت زمین و آسمان کی قدر و منزلت سے کہیں بڑھ کر ہے اور اس کا وجود زمین و آسمان کے وجود سے بہت پہلے کا ہے۔ واللہ أعلم۔