تشریح:
1۔ اس روایت میں اللہ تعالیٰ کے عرش کا بیان ہے کہ وہ پانی پر تھا۔ قرآن کریم میں ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت بھی اس کا عرش پانی پر تھا۔ یہ پانی کہاں تھا؟ کیا یہ پانی وہی معروف ہے یا کوئی اور مائع قسم کا مادہ تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں البتہ یہ بات یقینی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ عرش اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ فروکش ہوتا ہے جیسا کہ ملکہ سبا کے متعلق قرآن میں ہے۔ ’’اس کا تخت عظیم الشان تھا۔‘‘ (النمل:27۔23)
2۔عربی زبان میں گھر کی چھت کے لیے بھی لفظ عرش استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ہے۔ (وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا) ’’وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔‘‘ (البقرة:259) گویا عربی لغت میں عرش کے معنی ہیں۔ ©بادشاہ کا تخت جس پر وہ فروکش ہوتا ہے۔ ©گھر کی چھت اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے عرش کے دو مفہوم ہیں۔ ©وہ اللہ ذوالجلال کا محل استوا ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ ©وہ تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے بہر حال اللہ تعالیٰ کا عرش بھی دوسری مخلوقات کی طرح اس کا پیدا کیا ہوا ہے اس کے پائے ہیں اسے خاص فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں قیامت کے دن آٹھ فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ عرش سب آسمانوں کے اوپر ہے اور ساتوں آسمانوں کو قبے کی طرح گھیرے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں بلکہ خود عرش اپنے پروردگار کا محتاج ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور ہر مخلوق اپنے خالق کی محتاج ہے اور اس سے کسی صورت میں بے نیاز نہیں ہو سکتی۔