Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The night prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
742.
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں ایک حجرہ بنایا تھا، میرا گمان ہے کہ وہ چٹائی کا تھا۔ آپ نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی۔ آپ کے صحابہ میں سے کئی لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ جب آپ کو ان کے متعلق معلوم ہوا تو آپ بیٹھ رہے، پھر ان کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: ’’میں نے تمہارا عمل دیکھا اور تمہارا ارادہ پہچان لیا ہے۔ اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کیونکہ افضل نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ادا ہو، مگر فرض نماز (کہ اس کی ادائیگی مسجد میں ہونی چاہئے)۔‘‘ عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، اس نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، اس نے بتایا کہ میں نے ابونضر بن ابو امیہ سے سنا وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت زید (بن ثابت ؓ ) سے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔
تشریح:
(1) حدیث عائشہ کے متعلق دیگر روایات میں وضاحت ہے کہ ایسا ماہ رمضان میں ہوا۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1129) نیز چوتھی رات لوگ اتنے جمع ہوگئے کہ مسجد ان وجہ سے تنگ ہوگئی۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:924) آپ نے نماز فجر کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایا:’’لوگو! وہی اعمال بجالاؤ جن کی کی بجاآوری کی تم ہمت رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تواپنے دینے میں تنگ دلی نہیں دکھائے گا، البتہ تم خود تنگ آکر اس عمل کو چھوڑ دو گے۔ اللہ کے ہاں پسندیدہ عمل وہی ہے جس پر دوام کیا جائے اگرچہ وہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘(صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5861) حدیث زید بن ثابت کے متعلق دیگر روایات میں مزید وضاحت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اگلے دن لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے تو انھوں نے بآواز بلند تسبیحات کہنا شروع کر دیں۔ بعض نے دروازے کو کنکریاں مارنا شروع کردیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں ان کے ہاں تشریف لائے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6113) ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں نے اگلے دن نبی ﷺ کی آواز نہ سنی تو خیال کیا کہ شاید آپ سورہے ہوں، اس لیے بآواز بلند کھانسنے لگے تاکہ آپ تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔آپ نے فرمایا:’’مجھے اندیشہ ہے مبادا تمھارے ذوق وشوق کے پیش نظر نماز تہجد تم پر فرض ہوجائے۔ اگر فرض کردی گئی تو پھر تم اس کا اہتمام نہیں کرسکو گے۔‘‘(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث :7290)(2) شریعت نے نوافل کی ادائیگی مسجد میں اور فرائض گھروں میں ادا کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نماز سے پہلے اور بعد کی سنتیں عام طور پر گھر میں ادا کرتے تھے۔ صبح کی سنتیں تو نبی ﷺ سے مسجد میں پڑھنا ثابت ہی نہیں ۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نفل نماز کے لیے گھر اور مسجد کے ثواب میں وہی نسبت ہے جو جماعت اور تنہا نماز کے ثواب میں ہے۔ گھر میں نوافل پڑھنے کے کئی ایک فوائد ہیں:٭انسان ریاکاری سے محفوظ رہتا ہے اور نماز کے ثواب کو کم کرنے والی بہت سی چیزوں سے حفاظت ہوجاتی ہے۔٭اس گھر میں اللہ کی رحمت وبرکت کا نزول ہوتا ہے جس میں نماز پڑھی جائے ۔٭اس گھر میں اللہ کے فرشتے اترتے ہیں اور شیاطین وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ (عمدة القاري:372/4) (3) روایت کے آخر میں امام بخارى ؒ نے ایک مزید سند کا حوالہ دیا ہے۔ ان کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابو نضر سے ثابت کیا جائے، چنانچہ آخری سند میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:280/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
723
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
731
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
731
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
731
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
جماعت اور امامت کے ابوب میں نماز شب کا ذکر غیر متعلق ساہے۔شارحین نے اس کی مختلف توجیہات ذکر کی ہیں، مثلا:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بخاری کے بعض نسخوں میں یہ باب نہیں ہے اور یہی بات بہتر محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس باب کا یہاں کوئی موقف نہیں،(فتح الباری:2/278)نیز فرماتے ہیں کہ سابقہ روایت کے آخر میں صلاۃ اللیل کے الفاظ ہیں کسی کاتب نے انھیں مکرر لکھ دیا ہے، اس کے بعد کسی نے یہ سمجھ کر کہ یہاں باب کا لفظ ساقط ہوگیا ہے باب کا لفظ بڑھا دیا ہے۔٭ یہ باب درباب کی قبیل سے ہے۔چونکہ قبل ازیں صلاۃ اللیل کا ذکر آگیا ہے،اس کی اہمیت کے پیش نظر اس مقام پر ضمنی عنوان کے طور پر اسے یہاں بیان کردیا۔اصل مقصود سابقہ حدیث کے قصے کی تحقیق تھا۔٭امام بخاری رحمہ اللہ جب کسی چیز کا اثبات کرتے ہیں تو مختلف انداز اور اسلوب سے ثابت کر دکھاتے ہیں۔اس عنوان میں بھی سابقہ مسئلے کو ثابت کیا ہے کہ جب تاریکئ شب جو ایک حائل ہے اقتدا سے مانع نہیں تو اسی طرح کے دیگر حائل،دیوار یا راستہ وغیرہ بھی اقتدا سے مانع نہیں ہوسکتے۔٭شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر یہ عنوان نوافل کی جماعت ثابت کرنے کے لیے لایا گیا ہے لیکن نوافل کی جماعت کے لیے کتاب التہجد میں ایک الگ عنوان نمبر:36 ہے۔٭صلاۃ اللیل کی جماعت ثابت کرنا مقصود ہے، یہاں لفظ جماعۃ حذف ہوگیا ہے کیونکہ آگے کتاب التہجد میں صلاۃ اللیل کا حکم ،اس کی مقدار، کیفیتِ ادا،مسجد یا گھر میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ ا للہ کا یہی رجحان معلو م ہوتا ہے۔(فتح الباری:2/279)
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں ایک حجرہ بنایا تھا، میرا گمان ہے کہ وہ چٹائی کا تھا۔ آپ نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی۔ آپ کے صحابہ میں سے کئی لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ جب آپ کو ان کے متعلق معلوم ہوا تو آپ بیٹھ رہے، پھر ان کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: ’’میں نے تمہارا عمل دیکھا اور تمہارا ارادہ پہچان لیا ہے۔ اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کیونکہ افضل نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ادا ہو، مگر فرض نماز (کہ اس کی ادائیگی مسجد میں ہونی چاہئے)۔‘‘ عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، اس نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، اس نے بتایا کہ میں نے ابونضر بن ابو امیہ سے سنا وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت زید (بن ثابت ؓ ) سے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث عائشہ کے متعلق دیگر روایات میں وضاحت ہے کہ ایسا ماہ رمضان میں ہوا۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1129) نیز چوتھی رات لوگ اتنے جمع ہوگئے کہ مسجد ان وجہ سے تنگ ہوگئی۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:924) آپ نے نماز فجر کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایا:’’لوگو! وہی اعمال بجالاؤ جن کی کی بجاآوری کی تم ہمت رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تواپنے دینے میں تنگ دلی نہیں دکھائے گا، البتہ تم خود تنگ آکر اس عمل کو چھوڑ دو گے۔ اللہ کے ہاں پسندیدہ عمل وہی ہے جس پر دوام کیا جائے اگرچہ وہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘(صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5861) حدیث زید بن ثابت کے متعلق دیگر روایات میں مزید وضاحت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اگلے دن لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے تو انھوں نے بآواز بلند تسبیحات کہنا شروع کر دیں۔ بعض نے دروازے کو کنکریاں مارنا شروع کردیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں ان کے ہاں تشریف لائے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6113) ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں نے اگلے دن نبی ﷺ کی آواز نہ سنی تو خیال کیا کہ شاید آپ سورہے ہوں، اس لیے بآواز بلند کھانسنے لگے تاکہ آپ تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔آپ نے فرمایا:’’مجھے اندیشہ ہے مبادا تمھارے ذوق وشوق کے پیش نظر نماز تہجد تم پر فرض ہوجائے۔ اگر فرض کردی گئی تو پھر تم اس کا اہتمام نہیں کرسکو گے۔‘‘(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث :7290)(2) شریعت نے نوافل کی ادائیگی مسجد میں اور فرائض گھروں میں ادا کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نماز سے پہلے اور بعد کی سنتیں عام طور پر گھر میں ادا کرتے تھے۔ صبح کی سنتیں تو نبی ﷺ سے مسجد میں پڑھنا ثابت ہی نہیں ۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نفل نماز کے لیے گھر اور مسجد کے ثواب میں وہی نسبت ہے جو جماعت اور تنہا نماز کے ثواب میں ہے۔ گھر میں نوافل پڑھنے کے کئی ایک فوائد ہیں:٭انسان ریاکاری سے محفوظ رہتا ہے اور نماز کے ثواب کو کم کرنے والی بہت سی چیزوں سے حفاظت ہوجاتی ہے۔٭اس گھر میں اللہ کی رحمت وبرکت کا نزول ہوتا ہے جس میں نماز پڑھی جائے ۔٭اس گھر میں اللہ کے فرشتے اترتے ہیں اور شیاطین وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ (عمدة القاري:372/4) (3) روایت کے آخر میں امام بخارى ؒ نے ایک مزید سند کا حوالہ دیا ہے۔ ان کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابو نضر سے ثابت کیا جائے، چنانچہ آخری سند میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:280/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ابوالنضر سالم سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے زید بن ثابت ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ ( پردہ ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بورئیے کا تھا۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتدا کی۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا ( نماز موقوف رکھی ) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیوں کہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز ( مسجد میں پڑھنی ضروری ہے ) اور عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوالنضر ابن ابی امیہ سے سنا، وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے تھے، وہ زید بن ثابت سے، وہ نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابوالنضر سے ثابت کریں جس کی اس روایت میں تصریح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Thabit (RA): Allah's Apostle (ﷺ) made a small room in the month of Ramadan (Sa'id said, "I think that Zaid bin Thabit said that it was made of a mat") and he prayed there for a few nights, and so some of his companions prayed behind him. When he came to know about it, he kept on sitting. In the morning, he went out to them and said, "I have seen and understood what you did. You should pray in your houses, for the best prayer of a person is that which he prays in his house except the compulsory prayers."