تشریح:
(1) فقہی اعتبار سے نماز میں خشوع مستحب اور پسندیدہ ہے، البتہ نماز کی روح ہونے کے اعتبار سے لازمی ہے۔ لیکن اگر اسے ضروری قرار دیا جاتا تو اکثر لوگوں کی نمازیں باطل ہوجاتیں، اس لیے خشوع کے بغیر نماز ہوجاتی ہے اگرچہ وہ ناقص اور روح سے خالی ہوگی۔ خشوع انتہائی سکون کا نام ہے۔ پھر اس کا تعلق ظاہری اعضاء سے ہے اور خضوع کا تعلق دل سے ہوتا ہے اگرچہ خشوع کامل یہ ہے کہ انسان ظاہر اور باطن سے اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ امام بخاری ؒ نے لفظ خشوع اس لیے اختیار کیا ہے کہ ظاہر اعضاء اور جوارح کا فعل ہے اور انسان کے اختیار میں ہے جبکہ خضوع دل کا فعل اور غیر اختیاری ہے، اس بنا پر اختیاری فعل پر عنوان قائم کیا ہے تاکہ دل کے افعال کے لیے پیش خیمہ ثابت ہو۔
(2) رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں موجود کچھ لوگوں سے ایسی حرکات سرزد ہوئیں جو نماز کے منافی تھیں، مثلا: حدیث میں ہے کہ ایک دن آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو پچھلی صفوں میں کھڑے ہوئے آدمی نے نماز اچھی طرح نہ پڑھی تو آپ نے تنبیہ کے طور پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ اس طرح ایک شخص نے دوران نماز میں رسول اللہ ﷺ سے مسابقت کی تاکہ معلوم کرے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوتا ہے یا نہیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو اسے منع فرمایا، اس طرح کے دیگر واقعات دیکھنے کے بعد آپ نے بطور تنبیہ فرمایا جو حدیث ابو ہریرہ اور حدیث انس میں بیان ہوا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان دونوں احادیث کو اس عنوان کے تحت اکٹھا بیان فرمایا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک ہی واقعے سے متعلق ہیں۔ (فتح الباري:298/2)