تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الدعوات میں اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔ (باب الدعاء عند الكرب) "پریشانی کے وقت کی دعا"یہ دعا تکلیفیں ،مصیبتیں اور پریشانیاں دور کرنے کے لیے اکسیرکی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں توحید کی تینوں قسموں کا ذکر ہے یعنی یہ دعا توحید الوہیت، توحید ربوبیت اور توحید الاسماء والصفات پر مشتمل ہےاس دعا میں اللہ تعالیٰ کے عرش کی دو صفات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عظیم ہے جو اس کے بڑے اور وسیع ہونے کی علامت ہے اوردوسری صفت کریم ہے جو اس کے حسین و جمیل اور خوبصورت ہونے سے عبارت ہے یعنی مقدار اور معیار کے اعتبار سے قابل تعریف ہے۔ عرش کے عظیم و کریم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے۔ یہ نسبت اس کی خصوصیت وامتیاز پر دلالت کرتی ہے۔ وہ خصوصیت اورامتیاز یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ کے لیے محل استواء ہے۔
2۔واضح رہے کہ لغت عرب میں بادشاہ کے لیے مخصوص تخت کو عرش کہا جاتا ہے جیسا کہ ملکہ سبا کے متعلقہ قرآن میں ہے کہ اس کا ایک عظیم الشان تخت تھا۔ (النمل:23) شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ عظیم تخت ہے جس پر اللہ تعالیٰ مستوی ہے اور یہ عرش تمام مخلوقات سے اوپر اور تمام مخلوقات سے بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تین صفات بیان کی ہیں۔©عظیم وہ بہت بڑا ہے۔ ©کریم وہ عزت والا ہے۔ ©مجید وہ از حد بزرگی والا ہے۔ اور کرسی عرش کے علاوہ ہے۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق کرسی زمین اور آسمانوں سے بڑی ہے۔(البقرة: 255) اللہ تعالیٰ کا عرش کرسی سے کہیں زیادہ بڑا اور بزرگی والا ہے اللہ تعالیٰ اس عرش عظیم کا مالک ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عرش کی عظمت ووسعت بیان کرنے کے لیےیہ حدیث لائے ہیں۔