تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو اور جہت فوق کو ثابت کیا ہےکیونکہ اس میں ہے کہ فرشتے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرتا ہے اور ان سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔ حدیث کی ظاہری عبارت کا یہی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے وحی کے واسطے کے بغیر دریافت کرتا ہے۔فرشتوں کے لیے لفظ عروج استعمال ہوا ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے اس کے معنی ہیں نیچے سے اوپرچڑھنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ) "اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول بھی دیتے جس میں وہ اوپر چڑھنے لگ جاتے۔" (الحجر:15۔14)
2۔ ذات باری تعالیٰ کے علو کی دو قسمیں ہیں۔©علو ذات۔©علو صفات۔علو ذات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے اوپر ہے کوئی چیز بھی اس کے اوپر تو کجا اس کے برابر بھی نہیں ہو سکتی علو صفات کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام صفات بلند پایہ ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ) "اللہ تعالیٰ کے لیے سب سے اونچی اور بلند مثال ہے۔" (النحل:16۔60) اس سلسلے میں اہل سنت کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے اوپر ہے اور اس کی بلندی ازلی اور ابدی صفات کی وجہ سے ہے دو گروہوں نے اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ اس عقیدے سے اللہ تعالیٰ کی توہین لازم آتی ہے کیونکہ کائنات میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں انسان خود ٹھہرنا گوارا نہیں کرتا چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ ان مقامات میں بھی ہے دوسرا گروہ ان کے برعکس کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اوپر ہے نہ نیچے نہ جہان کے اندر ہے نہ باہر نہ دائیں ہے نہ بائیں نہ کائنات سے متصل (ملاہو) ہے اور نہ اس سے متصل (الگ) واضح رہے کہ ہم عدم کے سواکسی ایسی چیز سے واقف نہیں جو کائنات کے اوپر ہو نہ نیچےنہ دائیں نہ متصل نہ منفصل۔اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اور توہین کیا ہو سکتی ہے۔
3۔الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اور تابعین کے اقوال سے کوئی نص یا واضح بات ایسی نہیں جو ثابت کرے۔ کہ اللہ تعالیٰ عرش پر یا آسمانوں کے اوپر نہیں بلکہ ان کی تمام باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے اوپر ہے۔ بہر حال ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو کا ثابت ہونا قرآن مجید حدیث ، اجماع ، عقل اور فطرت سے ثابت ہے۔اس کے خلاف عقیدہ رکھنا سراسر گمراہی اور ضلالت ہے۔ أعاذنا اللہ منه آمین۔