تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا اصول ہے کہ جہاں قوی روایات کی وجہ سے حکم میں اختلاف ہو وہاں اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں لگاتے۔
(2) امام مالک ؒ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنے کے قائل نہیں ہیں، اگر کوئی پڑھ لے تو اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ جمہور علماء کا فیصلہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنا سنت ہے۔ امام بخاری کا رجحان امام مالک کے موقف کی طرف ہے، اس لیے آپ نے دونوں قسم کی روایات کو جمع کردیا ہے۔ حدیث انس ؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا آغاز ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کیا جائے جبکہ اس کے بعد حدیث ابو ہریرہ ؓ کو ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دعائے افتتاح پڑھی جاسکتی ہے۔
(3) اب یہ مسئلہ کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک ؒ کے نزدیک بسم اللہ بآواز بلند یا آہستہ کسی طرح بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ بسم اللہ پڑھی جائے۔ وہ مذکورہ روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ قراءت کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کرنا چاہیے۔ جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔ پھر بسم اللہ پڑھنے والوں میں اختلاف ہے کہ اسے آہستہ پڑھنا چاہیے یا اونچی آواز سے، آہستہ پڑھنے والوں کے دلائل حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی۔ میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:890(399)) امام نووی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’اس شخص کی دلیل جو بسم اللہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتا۔‘‘ ایک دوسری روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بآواز بلند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں پڑھتے تھے۔ (مسندأحمد:179/3) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ یہ حضرات آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب ذکرالدلیل علی أن انسَا......:1/250) بعض روایات میں بسم اللہ پڑھنے کی نفی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس نفی کو بآواز بلند پڑھنے پر محمول کیا جائے، یعنی وہ بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:295/2) اور جو حضرات بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:حضرت ابو ہریرہ ؓ نے ایک دفعہ نماز پڑھائی تو پہلے انھوں نے بسم اللہ پڑھی، اس کے بعد سورۂ فاتحہ تلاوت کی، اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یقینامیں نماز ادا کرنے میں رسول اللہ ﷺ سے بہت مشابہ ہوں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي، باب افتتاح القراءة في الصلاة….. 2/46) ٭حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز پڑھی تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز سے پڑھی اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کررہا ہوں۔ (سنن الدارقطني، باب وجوب قراءة "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" في الصلاة…… 1/307۔ 308) ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے، البتہ پوشیدہ پڑھنے کے متعلق احادیث زیادہ صحیح اور واضح ہیں۔ ہاں، جن احادیث میں بسم اللہ کا ذکر نہیں انھیں راوی کے عدم علم یا اس کی قراءت کے مخفی ہونے پر محمول کیا جائے گا اور جن روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا ذکر ہے انھیں اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بآواز بلند بھی پڑھتے تھے تاکہ لوگوں کو اس کی مشروعیت کا پتہ چل جائے۔ یاد رہے کہ بسم اللہ، سورۂ فاتحہ کی ایک آیت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:1183)