Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
83. Chapter: The necessity of saying the Takbir, i.e., Allahu Akbar (Allah is the Most Great) and the commencement of As-Salat (the prayer)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The necessity of saying the Takbir, i.e., Allahu Akbar (Allah is the Most Great) and the commencement of As-Salat (the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
743.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوئے (اور گر پڑے) تو آپ کی بائیں جانب کچھ زخمی ہو گئی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں ان دنوں آپ نے نمازوں میں سے جو نماز بھی پڑھائی وہ بیٹھ کر پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تکبیر تحریمہ کے وجوب کو بیان کیا ہے، کیونکہ بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ ذکر اللہ کے بغیر نماز شروع کی جاسکتی ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو عادت کے طور پر اللہ اکبر کو ضروری نہیں سمجھتے، البتہ مطلق ذکر اللہ کو ضروری کہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نماز میں داخل ہونے کے لیے تکبیر، یعنی اللہ اکبر کہنا ضروری ہے۔ اگرچہ اس روایت میں تکبیر کا ذکر نہیں، تاہم دوسری روایات میں صراحت ہے کہ جب امام اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو۔ اس میں تکبیر تحریمہ کو امر کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو وجوب کےلیے ہے، پھر اس میں امام کی تکبیر کے ساتھ مقتدی کی تکبیر کو مشروط کیا گیا ہے، اس لیے امام کے ساتھ ہی تکبیر کہنا پڑے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ افتتاحِ نماز اس تکبیر ہی ے ہوگا۔ اس طرح امام بخاری ؒ نے بیک وقت تکبیر تحریمہ کے وجوب اور افتتاح نماز کو بیان فرمایا ہے۔ چونکہ اگلی روایت میں بھی حضرت انس ؓ سے مروی ہے اور واقعہ بھی ایک ہی ہے اس بنا پر تکبیر کا اعتبار تمام روایات میں کیا جائے گا اگرچہ صراحت کے ساتھ کسی روایت میں اس کا ذکر موجود نہ ہو جیسا کہ پیش کردہ روایت میں ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث انس کے دونوں طریق ایک خاص مقصد کے پیش نظر بیان کیے ہیں: پہلا طریق جو شعیب راوی سے ہےاس میں اختصار ہے، لیکن اس میں امام زہری ؒ کا حضرت انس ؓ سے سماع بیان ہوا ہے۔ دوسرا طریق جو لیث راوی سے ہے اس میں پہلی روایت کے اختصار کی تفصیل ہے۔ (فتح الباري:282/2) (2) نماز شروع کرنے سے پہلے خالص اللہ کے لیے اس کی نیت کرنا ضروری ہے جو دل کا فعل ہے اور نیت دل سے ہونی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ’’انھیں صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔‘‘(البينة:98 : 5) اور حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الوحي، حدیث:1) نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا بدعت ہے کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ نماز کے لیے نیت کے ضروری ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔ امام بخاری ؒ نے کتاب الإیمان کے آخر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘ یہ ارشاد ایمان، وضو، نماز، زکاۃ وغیرہ تمام کو شامل ہے۔ (فتح الباري:282/2) واضح رہے کہ نیت، صحت نماز کے لیے شرط ہے، اس کے بغیر نماز صحیح نہ ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
724
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
732
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
732
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
732
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
یہاں سے کتاب الاذان کا تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے۔یہ حصہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ بیان ہوا ہے۔ اس میں تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنےتک مسائل بڑی شرح وبسط سے بیان ہوئے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ اس میں قیل وقال کے بجائے صرف نماز نبوی کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔اللہ تعالیٰ اس خواہش کے مطابق عمل کی توفیق دے۔(آمين)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوئے (اور گر پڑے) تو آپ کی بائیں جانب کچھ زخمی ہو گئی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں ان دنوں آپ نے نمازوں میں سے جو نماز بھی پڑھائی وہ بیٹھ کر پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تکبیر تحریمہ کے وجوب کو بیان کیا ہے، کیونکہ بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ ذکر اللہ کے بغیر نماز شروع کی جاسکتی ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو عادت کے طور پر اللہ اکبر کو ضروری نہیں سمجھتے، البتہ مطلق ذکر اللہ کو ضروری کہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نماز میں داخل ہونے کے لیے تکبیر، یعنی اللہ اکبر کہنا ضروری ہے۔ اگرچہ اس روایت میں تکبیر کا ذکر نہیں، تاہم دوسری روایات میں صراحت ہے کہ جب امام اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو۔ اس میں تکبیر تحریمہ کو امر کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو وجوب کےلیے ہے، پھر اس میں امام کی تکبیر کے ساتھ مقتدی کی تکبیر کو مشروط کیا گیا ہے، اس لیے امام کے ساتھ ہی تکبیر کہنا پڑے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ افتتاحِ نماز اس تکبیر ہی ے ہوگا۔ اس طرح امام بخاری ؒ نے بیک وقت تکبیر تحریمہ کے وجوب اور افتتاح نماز کو بیان فرمایا ہے۔ چونکہ اگلی روایت میں بھی حضرت انس ؓ سے مروی ہے اور واقعہ بھی ایک ہی ہے اس بنا پر تکبیر کا اعتبار تمام روایات میں کیا جائے گا اگرچہ صراحت کے ساتھ کسی روایت میں اس کا ذکر موجود نہ ہو جیسا کہ پیش کردہ روایت میں ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث انس کے دونوں طریق ایک خاص مقصد کے پیش نظر بیان کیے ہیں: پہلا طریق جو شعیب راوی سے ہےاس میں اختصار ہے، لیکن اس میں امام زہری ؒ کا حضرت انس ؓ سے سماع بیان ہوا ہے۔ دوسرا طریق جو لیث راوی سے ہے اس میں پہلی روایت کے اختصار کی تفصیل ہے۔ (فتح الباري:282/2) (2) نماز شروع کرنے سے پہلے خالص اللہ کے لیے اس کی نیت کرنا ضروری ہے جو دل کا فعل ہے اور نیت دل سے ہونی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ’’انھیں صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔‘‘(البينة:98 : 5) اور حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الوحي، حدیث:1) نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا بدعت ہے کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ نماز کے لیے نیت کے ضروری ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔ امام بخاری ؒ نے کتاب الإیمان کے آخر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘ یہ ارشاد ایمان، وضو، نماز، زکاۃ وغیرہ تمام کو شامل ہے۔ (فتح الباري:282/2) واضح رہے کہ نیت، صحت نماز کے لیے شرط ہے، اس کے بغیر نماز صحیح نہ ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے یہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور ( گر جانے کی وجہ سے ) آپ کے دائیں پہلو میں زخم آ گئے۔ حضرت انس ؓ نے بتلایا کہ اس دن ہمیں آپ نے ایک نماز پڑھائی، چونکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلام کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لك الحمد کہو
حدیث حاشیہ:
جب امام بخاری ؒ جماعت اور امامت کے ذکر سے فارغ ہوئے تو اب صفت نماز کا بیان شروع کیا۔ بعض نسخوں میں باب کے لفظ کے پہلے یہ عبارت ہے: أبواب صفة الصلوٰة لیکن اکثر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ اور شافعیہ اور مالکیہ سب کے نزدیک نماز کے شروع میں اللہ أکبر کہنا فر ض ہے اور کوئی لفظ کافی نہیں اور حنفیہ کے نزدیک کوئی لفظ جو اللہ کی تعظیم پر دلالت کرے کافی ہے۔ جیسے اللہ أجل یا اللہ أعظم ( وحیدی ) مگر احادیث واردہ کی بنا پر یہ خیال صحیح نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik Al-Ansari (RA): Allah's Apostle (ﷺ) rode a horse and fell down and the right side of his body was injured. On that day he prayed one of the prayers sitting and we also prayed behind him sitting. When the Prophet (ﷺ) finished the prayer with Taslim, he said, "The Imam is to be followed and if he prays standing then pray standing, and bow when he bows, and raise your heads when he raises his head; prostrate when he prostrates; and if he says "Sami'a-l-lahu Liman hamida", you should say, "Rabbana wa-laka-l hamd.: