تشریح:
1۔مذکورہ بالا تینوں احادیث حضرت جرید بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف طرق سے مروی ایک ہی حدیث ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود بیان فرمایا: تم قیامت کے دن اپنے رب سے محودیدار ہوگے جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی احادیث سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف واقعات ہیں۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ازخود بتایا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سوال کرنے پر اس سے ہمیں مطلع فرمایا کہ اہل ایمان کو قیامت کے دن دیدار الٰہی نصیب ہوگا۔ چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے: ’’تم میں سے کوئی بھی موت سے پہلے اپنے ر ب عزوجل کو نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7356(2931) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ آیت کریمہ میں اپنے رب کریم کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کا بیان ہے۔
2۔اگرچہ لغوی اعتبار سے لفظ نظر چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے: ©۔ غوروفکر کرنا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ) ’’کیا وہ اونٹ کی طرح نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیاگیا۔‘‘ (الغاشیة: 17/88)©۔ انتظارکرنا جیسا کہ قران مجید میں ہے: (مَا يَنْظُرُونَ إِلا صَيْحَةً وَاحِدَةً) ’’وہ صرف ایک زور دار چیخ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ (یٰس: 49) رحم وکرم کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا ہے: (وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) ’’قیامت کے دن اللہ ان کی طرف نہیں دیکھے گا، یعنی ان پر رحم وکرم نہیں کرے گا۔‘‘ (آل عمران 77)©۔ کھلی آنکھ سے دیکھنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ) ’’وہ آپ کی طرف اس شخص کی طرح دیکھیں گے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔‘‘ (محمد 20/47)
3۔واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں تشبیہ یا عتبار روئیت کے ہے، یعنی چاند کے دیکھنے کو اللہ تعالیٰ کی روئیت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ تشبیہ باعتبار مرئی کے نہیں ہے، یعنی چاند کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تشبیہ نہیں دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مشابہ کوئی چیز نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ روئیت باری کے متعلق احادیث حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ (فتح الباري: 536/13) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یقیناً اپنے رب کو دیکھو گے اس روئیت میں کوئی شک وشبہ یا تعجب و مشقت نہ ہوگی۔اور نہ اسے دیکھنے میں کوئی رکاوٹ ہی سامنے ہوگی بلکہ ہر اہل ایمان کھلی آنکھ سے اپنے رب کو اس طرح دیکھے گا جس طرح چودھویں رات کا چاند دیکھا جاتاہے۔ اگرچہ روئیت کے لیے ایک دوسرے کے سامنے ہونا اور آنکھ سے شعاعوں کا نکلنا جومرئی (دیکھی جانے والی چیز) پر پھیل جائیں اور دیکھنے والے کی آنکھ میں مرئی (دیکھی جانے والی چیز) کی صورت کا منقش ہونا ضروری ہے تاہم یہ تمام شرائط عام اشیاء کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بالاتر ہے اور اس کے لیے ایسی شرائط کا ثابت کرنا محال ہے۔ شارحین صحیح بخاری نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ روئیت جہت کے بغیر ہوگی کیونکہ وہ جہت سے پاک ہے۔ اس کلام کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت علو ثابت ہے۔ دراصل یہ فلاسفہ اور متکلمین کے خیالات ہیں جنھیں ہمارے بعض شارحین نے اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات نہیں ہیں۔ ہم ایسی باتوں کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ خود ساختہ اور من گھڑت ہیں۔ واللہ أعلم۔