موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ} [الشورى: 38])
حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ترجمة الباب: {وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ} [آل عمران: 159] «وَأَنَّ المُشَاوَرَةَ قَبْلَ العَزْمِ وَالتَّبَيُّنِ لِقَوْلِهِ»: {فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ} [آل عمران: 159] «فَإِذَا عَزَمَ الرَّسُولُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ لِبَشَرٍ التَّقَدُّمُ عَلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ» وَشَاوَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُحُدٍ فِي المُقَامِ وَالخُرُوجِ، فَرَأَوْا لَهُ الخُرُوجَ، فَلَمَّا لَبِسَ لَأْمَتَهُ وَعَزَمَ قَالُوا: أَقِمْ، فَلَمْ يَمِلْ إِلَيْهِمْ بَعْدَ العَزْمِ، وَقَالَ: «لاَ يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ يَلْبَسُ لَأْمَتَهُ فَيَضَعُهَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ» وَشَاوَرَ عَلِيًّا، وَأُسَامَةَ فِيمَا رَمَى بِهِ أَهْلُ الإِفْكِ عَائِشَةَ فَسَمِعَ مِنْهُمَا حَتَّى [ص:113] نَزَلَ القُرْآنُ، فَجَلَدَ الرَّامِينَ، وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَى تَنَازُعِهِمْ، وَلَكِنْ حَكَمَ بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ وَكَانَتِ الأَئِمَّةُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَشِيرُونَ الأُمَنَاءَ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ فِي الأُمُورِ المُبَاحَةِ لِيَأْخُذُوا بِأَسْهَلِهَا، فَإِذَا وَضَحَ الكِتَابُ أَوِ السُّنَّةُ لَمْ يَتَعَدَّوْهُ إِلَى غَيْرِهِ، اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَى أَبُو بَكْرٍ قِتَالَ مَنْ مَنَعَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ عُمَرُ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ «ثُمَّ تَابَعَهُ بَعْدُ عُمَرُ فَلَمْ يَلْتَفِتْ أَبُو بَكْرٍ إِلَى مَشُورَةٍ إِذْ كَانَ عِنْدَهُ حُكْمُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الَّذِينَ فَرَّقُوا بَيْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَأَرَادُوا تَبْدِيلَ الدِّينِ وَأَحْكَامِهِ» وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ» وَكَانَ القُرَّاءُ أَصْحَابَ مَشُورَةِ عُمَرَ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
7437 . حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ الْغَسَّانِيُّ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ مَا تُشِيرُونَ عَلَيَّ فِي قَوْمٍ يَسُبُّونَ أَهْلِي مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَعَنْ عُرْوَةَ قَالَ لَمَّا أُخْبِرَتْ عَائِشَةُ بِالْأَمْرِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَنْطَلِقَ إِلَى أَهْلِي فَأَذِنَ لَهَا وَأَرْسَلَ مَعَهَا الْغُلَامَ وَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
صحیح بخاری:
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ شوریٰ میں ) فرمانا مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے
)مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( اور سورۃ آل عمران میں ) فرمانا ” اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے “ اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کردینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا پھر جب ایک بات ٹھہرالے ( یعنی صلاح ومشورہ کے بعد ) تو اللہ پر بھروسہ کر ( اس کو کر گزر ) پھر جب آنحضرت ﷺمشورے کے بعد ایک کام ٹھہرالیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں ( یعنی دوسری رائے دینا ) اور آنحضرتﷺ نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا ‘ اب بعض لوگ کہنے لگے مدین ہی میں رہنا اچھا ہے ۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ ( مشورے کے بعد ) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ جب پیغمبر ( لڑائی پر مستعد ہو کر ) اپنی زرہ پہن لے ( ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے ) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وصل کیا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے عائشہ ؓ پر جو بہتان لگا گیا تھا اس مقدمہ میں مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ ؓ میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا ( علی کی رائے اوپر گزری ہے ) بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تا کہ جو کام آسان ہو ‘ اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جوزکوۃٰ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑوگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا ‘ میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو آنحضرت ﷺم نے یکساں رکھا ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہوگئی غرض ابو بکر نے عمر ؓ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس آنحضرت ﷺ کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں ‘ دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے ( وہ کافر ہو گئے ) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے ( اسلام سے پھر جائے ) اس کو مار ڈالو اور عمر ؓ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے ( یعنی عالم لوگ ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے ۔ تشریح : سبحان اللہ ! عمدہ اخلاق حاصل کرنے کے لیے قرآن سے زیادہ کوئی کتاب نہیں ہے ۔ اس آیت شوریٰ میں وہ طریقہ اختصار کے ساتھ بیان کردیا ۔ جو بڑی بڑی پوٹ کتابوں کا لب لباب ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی کو دینی اور دنیاوی کاموں میں صرف اپنی رائے منفرد رائے پھر بھروسہ کرنا باعث تباہی اور بر بادی ہے ۔ ہر کام میں عقلاءاور علماءسے مشورہ لینا چاہئیے‘ پھر بعضے لوگ کیا کرتے ہیں کہ مشورہ ہی لیتے لیتے وہمی مزاج ہو جاتے ہیں ۔ ان میں قوت فیصلہ بالکل نہیں ہوتی ۔ ایسے آدمیوں سے بھی کوئی کام پورا نہیں ہوتا تو فرما یا پس مشورے کے بعد جب ایک کام ٹھہرالے جب کوئی وہم نہ کر اور اللہ کے بھروسے پر کر گزر یہی قوت فیصلہ ہے ۔ یہ ب باب میں مذکورہ احادیث اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ حاکم اور بادشاہ اسلام کو سلطنت کے کاموں میں علماءاور عقلمندوں سے مشورہ لینا چاہیے لیکن جس کام میں اللہ اور رسول کا حکم صاف صاف موجود ہے اس میں مشورہ کی حاجت نہیں اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر عمل کرنا چاہئیے اگر مشورہ والے اس کے خلاف مشورہ دیں تو اس کو بیکار سمجھنا چاہئیے ۔ اللہ اور رسول پر کسی کی تقدیم جائز نہیں ہے ۔ دعوا کل قول عند قول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
7437. سیدہ عائشہ ؓ س روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ”تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔“ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ ؓ کو اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: ”اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔“