قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: 23])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7437. حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّاسَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ قَالُوا لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَهَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ قَالُوا لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتْبَعْهُ فَيَتْبَعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ وَيَتْبَعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ وَيَتْبَعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ وَتَبْقَى هَذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا شَافِعُوهَا أَوْ مُنَافِقُوهَا شَكَّ إِبْرَاهِيمُ فَيَأْتِيهِمْ اللَّهُ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا فَإِذَا جَاءَنَا رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ فَيَأْتِيهِمْ اللَّهُ فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ أَنْتَ رَبُّنَا فَيَتْبَعُونَهُ وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُهَا وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ هَلْ رَأَيْتُمْ السَّعْدَانَ قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ فَمِنْهُمْ الْمُوبَقُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ أَوْ الْمُوثَقُ بِعَمَلِهِ وَمِنْهُمْ الْمُخَرْدَلُ أَوْ الْمُجَازَى أَوْ نَحْوُهُ ثُمَّ يَتَجَلَّى حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللَّهُ مِنْ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنْ النَّارِ مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا مِمَّنْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ بِأَثَرِ السُّجُودِ تَأْكُلُ النَّارُ ابْنَ آدَمَ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ فَيَخْرُجُونَ مِنْ النَّارِ قَدْ امْتُحِشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ تَحْتَهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ ثُمَّ يَفْرُغُ اللَّهُ مِنْ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَيَبْقَى رَجُلٌ مِنْهُمْ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ هُوَ آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الْجَنَّةَ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنْ النَّارِ فَإِنَّهُ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا فَيَدْعُو اللَّهَ بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَهُ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ هَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَنِي غَيْرَهُ فَيَقُولُ لَا وَعِزَّتِكَ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ وَيُعْطِي رَبَّهُ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ مَا شَاءَ فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنْ النَّارِ فَإِذَا أَقْبَلَ عَلَى الْجَنَّةِ وَرَآهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ ثُمَّ يَقُولُ أَيْ رَبِّ قَدِّمْنِي إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ أَلَسْتَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَ الَّذِي أُعْطِيتَ أَبَدًا وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ وَيَدْعُو اللَّهَ حَتَّى يَقُولَ هَلْ عَسَيْتَ إِنْ أُعْطِيتَ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ فَيَقُولُ لَا وَعِزَّتِكَ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ وَيُعْطِي مَا شَاءَ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَإِذَا قَامَ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ انْفَهَقَتْ لَهُ الْجَنَّةُ فَرَأَى مَا فِيهَا مِنْ الْحَبْرَةِ وَالسُّرُورِ فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ ثُمَّ يَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ فَيَقُولُ اللَّهُ أَلَسْتَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ مَا أُعْطِيتَ فَيَقُولُ وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ لَا أَكُونَنَّ أَشْقَى خَلْقِكَ فَلَا يَزَالُ يَدْعُو حَتَّى يَضْحَكَ اللَّهُ مِنْهُ فَإِذَا ضَحِكَ مِنْهُ قَالَ لَهُ ادْخُلْ الْجَنَّةَ فَإِذَا دَخَلَهَا قَالَ اللَّهُ لَهُ تَمَنَّهْ فَسَأَلَ رَبَّهُ وَتَمَنَّى حَتَّى إِنَّ اللَّهَ لَيُذَكِّرُهُ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا حَتَّى انْقَطَعَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ قَالَ اللَّهُ ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ

مترجم:

7437.

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی وقت محسوس ہوتی ہے؟“ لوگوں نے کہا: نہیں اللہ کے رسول! پھر آپ نے پوچھا: ”جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج دیکھنےمیں کوئی دشواری ہوتی ہے؟“ لوگوں نے کہا نہیں، اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: یقیناً تم اسی طرح اپنے رب کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو اکٹھا کرے گا اور فرمائے گا: جو کوئی جس کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پیچھے لگ جائے، چنانچہ جو لوگ سورج کی عبادت کرتے تھے وہ سورج کے پیچھے ہو جائیں گے اور چاند کی پوجا کرنے والے چاند کے پیچھے لگ جائیں گے۔ پھر یہ امت باقی رہ جائے گی۔ اس میں سفارش کرنے والے یا نفاق رکھنے والے بھی ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (راوی حدیث) ابراہیم کو (الفاظ بیان کرنے میں) شک ہوا ہے۔۔۔۔۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم یہیں رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا رب ہمارے پاس آجائے جب ہمارا رب آجائے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا: جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ اقرار کریں گے۔ اس کے بعد دوزخ کی پشت پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا تو میں اور میری امت اس پر سب سے پہلے گزریں گے۔ اس دن انبیاء ؑ کے علاوہ کوئی شخص گفتگو کرنے کی ہمت نہیں رکھے گا۔ اس روز رسولوں کی زبان پر ہوگا: اے اللہ! سلامتی سے رکھ۔ اے اللہ! سلامتی سے رکھ۔ دوزخ میں سعد ان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعد ان درخت دیکھا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: وہ آنکڑے سعد ان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے البتہ ان کی لمبائی، چوڑائی اور موٹائی کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے۔ ان میں سے کچھ تباہ ہونے والے ہوں گے یا اپنے اعمال سے جکڑے ہوئے ہوں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے یا انہیں بدلہ دیا جائے گا یا اس طرح کے الفاظ ذکر کیے۔ پھر اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا حتی کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ اور اہل جہنم میں سے کسی کو اپنی رحمت سے باہر نکلنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں دوزخ سے باہر نکال لو۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ اپنا رحم وکرم کرنا چاہے گا اور انہوں نے لا اله اللہ کا اقرار کیا ہوگا۔ وہ (فرشتے) ایسے لوگوں کو سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے۔ دوزخ سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے۔ دوزخ سجدوں کے نشانات کے علاوہ ابن آدم کے ہر عضو کو جلا کر بھسم کردے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ سجدوں کے نشانات کو جلائے، چنانچہ یہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ وہ جل بھن چکے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا۔ وہ اس کے نیچے سے اس طرح نکیلں گے جیسے دانہ سیلاب کے خس وخاشاک کے نیچے سے اگتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہوگا، صرف ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہوگا۔ وہ اہل جہنم میں سے آخری شخص ہوگا جسے سب کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میرا چہرا دوزخ سے پھیر دے کیونکہ اس کے شعلوں نے مجھے جلا دیا ہے۔ پھروہ اللہ تعالیٰ سے اس وقت تک دعا کرتا رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر تجھے یہ دے دیا جائے تو کیا تو اس کے علاوہ کچھ اور مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا: تیری عزت کی قسم! میں کوئی اور سوال نہیں کروں گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے عہد وپیماں کرے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گا، پھر جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھے گا تو جتنا عرصہ اللہ کو منظور ہوگا خاموش رہے گا پھر وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے صرف جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا: کیا تو نے عہد پیماں نہیں کیے تھے کہ جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے، اس کے علاوہ تو مجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگے گا؟ افسوس اے ابن آدم! تو کس قدر عہد شکن ہے؟ پھر وہ کہے گا:اے میرے رب! نیز اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرے گا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو کیا اس کے علاوہ کچھ اور بھی مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا: تیری عزت کی قسم! اس کے سوا کچھ اور نہیں مانگوں گا اور اللہ جو چاہے گا عہد وپیماں کرے گا چنانچہ اسے جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا، پھر جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہوگا تو جنت اسے سامنے نظر آئے گی اور وہ دیکھے گا کہ اس کے اندر کس قدر فرحت ومسرت کا سامان ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا وہ خاموش رہے گا، پھر عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا؛ کیا تو نے عہد وپیماں نہیں کیے تھے کہ میں نے کچھ دیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ اللہ تعالٰی مزید فرمائے گا؛ ابن آدم! افسوس تو کس قدر وعدہ خلاف ہے۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق میں زیادہ بدبخت نہیں ہوں۔ وہ ہمیشہ اللہ کو پکارتا رہے گا اور مسلسل دعائیں کرتا رہے گا یہاں تک اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں پر ہنس دے گا۔ جب ہنس دے گا تو فرمائے گا: تو جنت میں داخل ہو جا،جب وہ جنت میں داخل ہو جائے گا تو اس سے فرمائے گا کہ اپنی تمنائیں بیان کر۔ تب وہ اپنی تمام خواہشات بیان کرے گا اور اللہ سے مانگے گا حتی کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا: اورفر مائے گا فلاں فلاں چیز کی تمنا کر یہاں تک کہ اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی۔ (اس کے بعد ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرے لیے یہ ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہے۔