تشریح:
1۔اس روایت میں دو جلیل القدر صحابۂ کرامؓ کا لفظی اختلاف اپنے اپنے سماع کے مطابق ہے۔ رسول اللہ نے کئی بار یہ حدیث بیان کی ہوگی، ہر صحابی نے اپنی اپنی سماعت کے مطابق اسے بیان کیا ہے۔ اتفاق کی صورت یوں ہو سکتی ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک مثل کی خبر دی جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے، پھر اپنے فضل وکرم اور احسان کے طور پر اس میں دس گنا اضافہ کر دیا جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 451(182)
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے اہل ایمان کے لیے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہوگا اور اس دیدار میں کچھ ایسا سروراور کیف ہوگا کہ جب تک اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا جنتی کسی اور نعمت کی طرف نہیں دیکھیں گے بلکہ ٹکٹکی باندھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف دیکھتے رہیں گے، چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب جنت والے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ اعلان فرمائے گا: میں تمھیں ان نعمتوں سے بڑھ کر کچھ اور بھی دینے والا ہوں۔ اہل جنت کہیں گے: اے اللہ! کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے، کیا تو نے ہمیں جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل نہیں کر دیا، یعنی اب کونسی کمی رہ گئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنا حجاب ہٹا دے گا اور اپنے دیدار سے مشرف کرے گا۔ اہل جنت کو جو کچھ بھی ملا ہوگا ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنا ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 449(181)
3۔جہمیہ اور معتزلہ نے دیدار الٰہی سے متعلق آیات واحادیث کی تاویل کی ہے، ان عقل پرستوں کے ہاں اس طرح دیدار الٰہی کے وقت اللہ تعالیٰ کے لیے ایک مخصوص جہت متعین کرنا پڑے گی جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات جہات وحدود سے پاک ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ تمھیں صفات الٰہی کو اپنی عقل کے مطابق کرنے کا کس نے پابند کیا ہے؟ یہ بات تمہارے بس میں نہیں ۔اس میں عقل عیار کو کوئی دخل نہیں لہذا اس میں بے جا مداخلت نہ کی جائے۔ درست اور صحیح راستہ یہی ہے کہ جو بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اسے جوں کا توں تسلیم کیا جائے۔ صفات الٰہی میں انسانی عقل کی مداخلت سے گمراہی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس سے بڑی نعمت سے ضرورسرفراز فرمائیں گے۔
4۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کلام کیا تواس کلام میں اتنی لذت تھی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان لمحات کو طویل تر کرنے کی کوشش کی، دیدار الٰہی میں تو بہرحال سماست سے بہت زیادہ لذت ہونا یقینی ہے، البتہ فاسق اور فاجر لوگ اس نعمت سے محروم ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت "اتیان" یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا بندوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے آنا بھی ثابت ہے۔ اس صفت کے اثبات پر بھی سلف صالحین کا اجماع ہے لیکن اہل بدعت نے اس صفت کی دور ازکار تاویلات کی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان صفات کو بلاتحریف وتعطیل اوربلاتکییف وتمثیل ثابت کریں۔ ہم اس کی حرکت کو مخلوق کی حرکت سے تشبیہ نہ دیں بلکہ اس سے مراد حقیقی آنا تسلیم کریں جو اس کی شان کے لائق ہے۔ اسی طرح اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت "ضحك" بھی ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہنسنا بھی برحق ہے جس کی تاویل کرنا غلط ہے، چنانچہ مُعَطلَّہ نے اس کی تاویل ثواب دینے سے کی ہے، لیکن ایسی تاویلات ظاہر نصوص کے خلاف ہیں، لہذا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا حقیقی ہنسنا ہے جو اس ذات باری تعالیٰ کے لائق ہے۔ سلف صالحین کا موقف ہے کہ ایسی صفات کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے بلاچون وچرا تسلیم کیا جائے اور اسکے متعلق کوئی تاویل نہ کی جائے۔ واللہ المستعان۔