تشریح:
(1) اسے دعائے استفتاح کہا جاتا ہے ۔ امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ تکبیر تحریمہ اور فاتحہ کے درمیان کچھ پڑا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ دیگر ادعیۂ افتتاح بھی احادیث میں وارد ہیں مگر مذکورہ دعا صحیح ترین ہے اور اسے آہستہ پڑھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے جو مختصر، آسان اور جامع ہے:(سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعاليٰ جدك ولا إله غيرك) (سنن أبي داود ،الصلاة، حدیث:776) سنن بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ افتتاح کے طور پر مختلف دعاؤں کو جمع بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن سند کے لحاظ سے یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ امام بیہقی نے خود وضاحت کردی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي، باب من روی الجمع بینھما:2/35)
(2) دعائے استفتاح کے بعد چونکہ قراءت شروع کرنی ہے، اس لیے قرآن کریم کے حکم کے پیش نظر تعوذ پڑھنا بھی سنت ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دعائے استفتاح کے بعد مندرجہ ذیل تعوذ پڑھتے: (أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه و نفخه و نفثه) (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:775) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾ ’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘ (النحل98:16) اس آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے متقدمین نے ہر رکعت کے شروع میں تعوذ کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جبکہ راجح بات یہ ہے کہ تعوذ صرف پہلی رکعت ہی میں پڑھا جائے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے: رسول اللہ ﷺ جب دوسری رکعت کے لیے اٹھتے تھے تو ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کے ساتھ قراءت شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساجدومواضع الصلاة، حدیث:1356(599))