تشریح:
1۔ اس حدیث کے مطابق مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے جیسا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے، چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے مراد مقام شفاعت ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3137) مجموعی طور پر اس سے مراد ایسامرتبہ ہے کہ سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرنے لگیں گے، چنانچہ سفارش کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف جاری ہوجائے گی۔
2۔مقام محمود کی اور بھی توجہیات میں، مثلاً: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مقام عطا فرما دیا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ دوسری یہ کہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جس کا نام ہی مقام محمود ہے، وہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔ اس شفاعت سے مراد شفاعت عظمی ہے جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔
3۔اگرچہ اختصار کی وجہ سے اس حدیث میں شفاعت کا ذکر نہیں ہے، چنانچہ بعض محدثین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث کے آغاز اور اختتام میں مطابقت ناپید ہے کیونکہ ابتدا میں ہے کہ لوگ میدان محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور شفاعت کے طالب ہوں گے کہ ہمارا حساب کر دیا جائے ہم سخت تکلیف میں مبتلا ہیں اور اختتام میں جہنم سے لوگوں کو نکالنے کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے قوی اشکال قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 437/11) شرح عقیدہ طحاویہ کے مصنف نے بھی اس پر تعجب کیا ہے کہ ائمہ کرام اس حدیث کو مختلف طرق سے ذکر کرتے ہیں لیکن شفاعت عظمیٰ اور باری تعالیٰ کے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے آنے کا ذکر نہیں کرتے، حالانکہ اس حدیث سے مقصود شفاعت عظمیٰ اور اس کی تفصیل بیان کرناہے۔ دراصل ائمہ کرام کا مقصود معتزلہ اور خوارج کی تردید تھا جو کہتے ہیں کہ اہل کبائر دوزخ سے نہیں نکل پائیں گے، اس لیے انھوں نے صرف اسی مضمون پر اکتفا کیا ہے۔ (شرح العقیدة الطحاویة: 255) اس شفاعت کی تفصیل "حدیث صور" میں ہے جسے امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ اس حدیث سے تمام اشکال دور ہو جاتا ہے۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے تاہم دیگرشواہد کے پیش نظر مذکورہ اشکال کو دورکرنے کے لیے قابل حجت ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 139/2)
4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے جبکہ معتزلہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے دور دولت پر حاضری کے لیے اجازت طلب کریں گے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت مل جائے گی تو اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہی سجدے میں گرجائیں گے۔ اس حدیث میں تین مرتبہ یہ ذکر ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھلی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور اس کے حضور سجدہ کریں گے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 137/2)