تشریح:
1۔ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا ذکر ہے جو قیامت کے دن ہوگی۔ اس ملاقات سے مراد بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو برحق ہے اور اس کا انکار کرنے والے گمراہ اور بے دین ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بیس سے زیادہ آیات میں اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اہل سنت نے ان آیات سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7443) اللہ تعالیٰ نے اس ملاقات سے انکار اور تکذیب کو کفر قرار دیا ہے۔ اس انکار کی موجودگی میں کوئی عمل کارگر نہیں ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ (العنکبوت 23) ایسے لوگوں کی رحمت الٰہی کی اُمید کیسے ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس ملاقات کے قائل ہی نہیں ہیں، لہذا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور مایوس ہی رہیں گے جبکہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہواوقت جلد ہی آنے والا ہے۔‘‘ (العنکبوت: 5) یعنی موت کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت انھیں اپنی آغوش میں لے لے گی۔ یہ دونوں طرح کی آیات ایک دوسرے کا عکس ہیں۔
2۔بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے دیدار الٰہی ثابت کیا ہے جو مبنی برحقیقت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’اور اللہ اہل ایمان پر بڑا مہربان ہے۔جس دن وہ اس(اللہ) سے ملاقات کریں گے ،ان کی دعا سلام ہوگی۔‘‘ (الأحزاب 43۔44) اہل لغت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ملاقات سے مراد روبرو ہونا اور ایک دوسرے کو کھلی آنکھ سے دیکھناہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ: 488/6)
3۔واضح رہے کہ ملاقات میں دو چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے: ایک تو چل کر دوسرے کی طرف جانا اور دوسرا اسے کھلی آنکھ سے دیکھنا جبکہ بعض اہل کلام نے اس ملاقات کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد اعمال کی جزا دینا ہے۔ یہ تاویل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کےموقف کے خلاف ہےکیونکہ قرآنی آیات سے ملاقات اور جزا کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس دن وہ اس(اللہ) سے ملاقات کریں گے، ان کی دعا، سلام ہوگی اور اس نے ان کے لیے عمدہ اجر تیار کررکھا ہے۔‘‘ (الأحزاب: 44) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملاقات اور اجر کریم دو الگ الگ نعمتیں ہیں، نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ تیرا وعدہ برحق، تیری ملاقات مبنی برحقیقت اور جنت ودوزخ بھی سچ ہیں۔ اس حدیث میں ملاقات اور جنت و دوزخ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے اگر ملاقات سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا وسزا ہو تو اس کے بعد جنت ودوزخ کو الگ بیان کرنے کا کیا مطلب؟ کیونکہ جنت فرمانبردار لوگوں کی جزا اور جہنم نافرمانوں کے لیے بطورسزا ہے۔ بہرحال ان احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دیدار الٰہی پر استدلال کیا ہے جو آپ کی دقت فہم اور قوت استنباط کی واضح دلیل ہے۔
4۔واضح رہے کہ قیس بن سعد کی روایت کو امام مسلم (حدیث :769) اور ابوداؤد علیہ السلام (حدیث:771) نے، نیز ابوالزبیر کی روایت کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا(حدیث:511) میں متصل سندسے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 531/13) غزوہ حنین کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر کچھ انصار کو ملال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث (7241) میں اس تسلی کا بیان ہے۔
5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن دو حوض ملیں گے: ایک میدان محشر میں ہوگا جہاں سے فرشتے بعض مرتدین کو پانی پینے سے روک دیں گے اور دوسرا حوض جنت میں ہوگا، جبکہ معتزلہ نے حوض کا انکار کیا ہے۔ واللہ أعلم۔