Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
83. Chapter: The necessity of saying the Takbir, i.e., Allahu Akbar (Allah is the Most Great) and the commencement of As-Salat (the prayer)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The necessity of saying the Takbir, i.e., Allahu Akbar (Allah is the Most Great) and the commencement of As-Salat (the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
745.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھیاللہ أکبر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں افتتاحِ نماز کا ذکر کیا تھا کہ وہ اللہ أکبر سے ہونا چاہیے، اس حدیث میں واضح طور پر اس کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ دیگر احادیث میں بھی اس کے متعلق وضاحت ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز کی کنجی وضو ہے، اس کی تحریم اللہ أکبر اور تحلیل السلام علیکم ورحمة اللہ ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:618) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1110(498)) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ اللہ أکبر سے نماز شروع کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738) ان روایات سے معلوم ہوا کہ نماز کا افتتاح اللہ أکبر سے ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:281/2)(2) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ یہ پہلے کا حکم ہے جو منسوخ ہوچکا ہے۔ اب حکم یہ ہے کہ جب امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تندرست مقتدیوں کو بیٹھ کر نہیں بلکہ کھڑے ہو کر اقتدا کرنی چاہیے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھائی تھی اور آپ کے پیچھے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل اور فیصلہ یہی ہے اور اسی کو امام بخاری ؒ نے اختیار کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:689)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
726
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
734
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
734
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
734
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
یہاں سے کتاب الاذان کا تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے۔یہ حصہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ بیان ہوا ہے۔ اس میں تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنےتک مسائل بڑی شرح وبسط سے بیان ہوئے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ اس میں قیل وقال کے بجائے صرف نماز نبوی کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔اللہ تعالیٰ اس خواہش کے مطابق عمل کی توفیق دے۔(آمين)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھیاللہ أکبر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں افتتاحِ نماز کا ذکر کیا تھا کہ وہ اللہ أکبر سے ہونا چاہیے، اس حدیث میں واضح طور پر اس کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ دیگر احادیث میں بھی اس کے متعلق وضاحت ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز کی کنجی وضو ہے، اس کی تحریم اللہ أکبر اور تحلیل السلام علیکم ورحمة اللہ ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:618) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1110(498)) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ اللہ أکبر سے نماز شروع کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738) ان روایات سے معلوم ہوا کہ نماز کا افتتاح اللہ أکبر سے ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:281/2)(2) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ یہ پہلے کا حکم ہے جو منسوخ ہوچکا ہے۔ اب حکم یہ ہے کہ جب امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تندرست مقتدیوں کو بیٹھ کر نہیں بلکہ کھڑے ہو کر اقتدا کرنی چاہیے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھائی تھی اور آپ کے پیچھے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل اور فیصلہ یہی ہے اور اسی کو امام بخاری ؒ نے اختیار کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:689)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوالزناد نے مجھ سے بیان کیا اعرج کے واسطہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
حدیث حاشیہ:
اس بارے میں بھی قدرے اختلاف ہے۔ بہتر یہی ہے کہ امام و مقتدی ہر دو سمع اللہ لمن حمدہ کہیں اور پھر ہر دو ربنا و لك الحمد کہیں۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری ؒ بذیل حدیث أبوهریرة رضي اللہ عنه ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبه من الرکعة ثم یقول وهو قائم ربنا و لك الحمد فرماتے ہیں:ربنا لك الحمد بحذف الواو، وفي رواية بإثباتها. وقد تقدم أن الرواية بثبوت الواو أرجح، وهي عاطفة على مقدر. أي ربنا أطعناك، وحمدناك، ولك الحمد. وقيل: زائدة. قال الأصمعي: سألت أبا عمرو عنها فقال: زائدة. تقول العرب: بعني هذا، فيقول المخاطب: نعم، وهو لك بدرهم، فالواو زائدة. وقيل: هي واو الحال، قاله ابن الأثير وضعف ما عداه. وفيه أن التسميع ذكر النهوض والرفع، والتحميد ذكر الاعتدال، واستدل به على أنه يشرع الجمع بين التسميع والتحميد لكل مصل من إمام، ومنفرد، ومؤتم، إذ هو حكاية لمطلق صلاته - صلى الله عليه وسلم۔(مرعاة، ج:1 ص: 559)ربنا لك الحمدحذف واؤ کے ساتھ اور بعض روایات میں اثبات واؤ کے ساتھ مروی ہے اور ترجیح اثبات واؤ کو ہی ہے جو واؤ عطف ہے اور معطوف علیہ مقدر ہے۔ یعنی اے رب ہمارے! ہم نے تیری اطاعت کی، تیری تعریف کی اور تعریف تیرے ہی لیے ہیں۔ بعض لوگوں نے محاورہ عرب کے مطابق اسے واؤ زائدہ بھی کہا ہے۔ بعض نے واؤ حال کے لیے مانا ہے، اس حدیث ابوہریرہ سے معلوم ہوا کہ لفظسمع اللہ لمن حمدہکہنا یہ رکوع میں جھکنے اور اس سے سر اٹھانے کا ذکر ہے۔ اورربنا و لك الحمدکہنا یہ کھڑے ہو کر اعتدال پر آجانے کے وقت کا ذکر ہے۔ اسی لیے مشروع ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی سب ہیسمع اللہ لمن حمدہ پھر ربنا و لك الحمدکہیں۔ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کی نماز اسی طرح نقل کی گئی ہے اورآپ کا ارشاد ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The Imam is to be followed. Say the Takbir when he says it; bow if he bows; if he says 'Sami a-l-lahu Liman hamida', say, ' Rabbana wa-laka-l-hamd', prostrate if he prostrates and pray sitting altogether if he prays sitting."