قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابٌ:)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

745. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلاَةَ الكُسُوفِ، فَقَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ، فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ القِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: قَدْ دَنَتْ مِنِّي الجَنَّةُ، حَتَّى لَوِ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا، لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا، وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ: أَيْ رَبِّ، وَأَنَا مَعَهُمْ؟ فَإِذَا امْرَأَةٌ - حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ - تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ هَذِهِ؟ قَالُوا: حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، لاَ أَطْعَمَتْهَا وَلاَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ - قَالَ نَافِعٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مِنْ خَشِيشِ - أَوْ خَشَاشِ الأَرْضِ

مترجم:

745.

حضرت اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے نماز کسوف پڑھائی تو آپ نے طویل قیام کیا۔ پھر رکوع کیا تو اسے خوب طویل کیا۔ پھر کھڑے ہوئے تو قیام کو خوب طویل کیا۔ اس کے بعد رکوع کیا تو اسے خوب طویل کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر سجدے کو خوب طویل کیا۔ پھر اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر سجدے کو خوب طویل کیا۔ پھر اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر سجدے کو خوب طویل کیا ۔ پھر کھڑے ہو کر قیام کیا اور قیام کو لمبا کیا، پھر رکوع کیا تو رکوع کو لمبا کیا، پھر سر اٹھا کر قیام کیا اور اسے خوب لمبا کیا، پھر رکوع کیا اور اسے لمبا کیا، پھر سر اٹھاکر سجدہ کیا اور اسے خوب لمبا کیا، اس کے بعد اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا اور سجدے کو لمبا کیا۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا: ’’جنت میرے اتنا قریب ہو چکی تھی کہ اگر میں جراءت کرتا تو اس کے خوشوں میں سے کوئی خوشہ تمہارے پاس لے آتا اور دوزخ بھی میرے اتنا قریب ہو گئی کہ میں کہنے لگا: اے مالک! کیا میں بھی ان لوگوں کے ساتھ رکھا جاؤں گا؟ اتنے میں ایک عورت دیکھی جسے بلی پنجا مار رہی تھی۔ میں نے پوچھا: اس عورت کا کیا قصور ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا: اس عورت نے بلی کو باندھے رکھا تھا حتی کہ وہ بھوک سے مر گئی، نہ تو وہ اسے خود کھلاتی تھی اور نہ اسے کھلا چھوڑتی تھی کہ وہ خود حشرات الارض سے اپنا پیٹ بھرے۔‘‘