تشریح:
1۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ ہیں۔"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی سے روک لے گا اور زمینوں کو دوسری انگلی پر۔" (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7414) یعنی آیت اور حدیث میں آسمانوں اور زمین کو روک لینے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري:541/13)
2۔ہمارے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں جن سے باری تعالیٰ ازل سے ابد تک متصف ہے جیسا کہ سمع بصر اور علم وغیرہ اور بعض صفات ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہیں۔ ان میں سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صفت کا ذکر کیا ہے کہ وہ زمین و آسمان کو تھامے ہوئے ہے۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ انھیں اپنی انگلیوں پر رکھ کر جھٹکا دے گا اور کہے گا۔ میں ہی بادشاہ ہوں آج متکبر و جبار اور بادشاہ کہاں ہیں؟
3۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان برسر عام کرتے تھے اور سامعین کو سمجھانے کے لیے عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صفات کا بیان عام لوگوں کے سامنے نہ کیا جائے حالانکہ یہ موقف سیرت نبوی کے خلاف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ یہودی عالم کے بیان کی تصدیق کے لیے تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں قیامت کے دن زمین و آسمان کی وہی کیفیت بیان ہوئی ہے جسے یہودی عالم نے اپنے انداز سے بیان کیا تھا۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان :202/2)