قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا المُرْسَلِينَ} [الصافات: 171])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7454. حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ أَنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَهُ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَهُ ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ فَيُؤْذَنُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيَكْتُبُ رِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَعَمَلَهُ وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى لَا يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا

مترجم:

7454.

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا جو صادق ومصدوق ہیں: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہے کہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات نطفہ جمع رہتا ہے۔پھر وہ اسی طرح جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے وہ اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل، اور اس کا نیک یا بد ہونا لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ بے شک تم میں سے ایک اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور دوذخ میں داخل ہو جاتا ہے اسی طرح ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کےاور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اہل جنت کے سے عمل کرنے لگتا ہے پھر وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔