تشریح:
1۔انسان اپنی پیدائش سے پہلے جن مراحل سے گزرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے محفوظ مقام (رحم مادر) میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفے کو لوتھڑا (جما ہوا خون بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہم نے ہڈیوں پر کچھ گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک اور ہی صورت میں پیدا کر دیا۔ پس بڑا با برکت ہے اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والاہے۔‘‘ (المومنون23۔12)
2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعمال و کردار سے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی قدرت بہت وسیع ہے اور اس نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہی اشیاء کی حقیقت ان کی پیدا ئش سے پہلے جانتا ہے نیز اس نے ہر چیز کو اپنے ہاں لکھ رکھا ہے۔ آئندہ وقوع پذیر ہونے والے حوادث اس تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں اس حدیث میں جس تقدیر کے لکھنے کا ذکر ہے یہ اس لکھی ہوئی تقدیر سے علیحدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کائنات سے پہلے لکھ رکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمھارے نفوس کو پہنچتی ہے وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب لکھی ہوئی ہے۔‘‘ (الحدید57۔22)
3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے واقعات تحریر کر لیے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748ـ2653) اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور واقعات کی تحریر انسان کے ارادے اور اختیار کے منافی نہیں۔ بہر حال اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اہل سعادت کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ کی رحمت نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اندازہ ٹھہرا لیا اور اسے اپنے پاس لکھ لیا پھر عمل کی توفیق دی اور اس کے لیے اسباب اور ذرائع پیدا کیے گویا یہ تمام مراحل درج ذیل آیت کا حصہ ہیں جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بطورعنوان منتخب کیا ہے۔ ’’اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی ہماری بات صادر ہو چکی ہے کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر یقیناً وہی غالب رہے گا۔‘‘