صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
11. باب : اللہ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ دلوں کا پھیرنے والا ہے
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
11. بَابُ مُقَلِّبِ القُلُوبِ
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
11. Chapter: The One Who turns the hearts
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : اللہ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ دلوں کا پھیرنے والا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The One Who turns the hearts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ انعام میں فر مان ” اور ہم ان کے دلوں کو اور ان کی آنکھوں کو پھیردیں گے ۔ “
7458.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ بکثرت یہ قسم اٹھایا کرتے تھے : ”دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!“
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت اس طرح قسم اٹھاتے تھے۔(لا، وَمُصَرّف القلوب)"دلوں میں تصرف کرنے والے کی قسم۔" (سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث :2092) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ قلب کے جتنے اعمال ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں مثلاً : دل کا ارادہ کرنا اس میں کسی خواہش کا پیدا ہونا نیز ایک حالت سے دوسری حال کی طرف پھرنا وغیرہ۔ (فتح الباري:642/11) 2۔قلب کو قلب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بکثرت ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھرتا رہتا ہے اگرچہ دل کا پھرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی۔ ’’بنو آدم کے تمام دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں گویا وہ ایک دل کی طرح ہیں اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے انھیں پھیرتا رہتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہتے"اے دلوں کو پھیرنے والے!ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6750)(2654) 3۔ دلوں کو پھیرنے کی صفت فعلی ہے جس کا مرجع قدرت ہے فعلی صفات نوعیت کے لحاظ سے قدیم ہیں لیکن بندے سے تعلق کے اعتبار سے حادث ہیں اللہ تعالیٰ ازل ہی سے اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے خالق ہے اس کے سوا ہر چیز مخلوق ہے۔ اس کی صفات میں کوئی صفت مخلوق یا حادث نہیں ہے البتہ فعلی صفات کا بندے سے تعلق حادث ہوتا ہے صفات فعلی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوتی ہیں۔ بہر حال مذکورہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کے دلوں کا مالک ہے انھیں جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے پھیرنے کا ختیار رکھتا ہے۔ کوئی بھی اس صفت میں اس کا شریک نہیں۔ کائنات میں کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بندہ ہر آن اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ایک لمحے کے لیے بھی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور توفیق ہدایت نہ ملے تو دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور آخرت میں سخت ترین عذاب میں گرفتار ہو گا اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ پراٹل ہے کہ بندہ بااختیار اور مکلف ہے اور اسی ارادے واختیار پر قیامت کے دن جز اوسزا مرتب ہو گی۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 214/1)
دلوں کوپھیرنے کے معنی ان کا ایک رائے سے دوسری رائے کی طرف پھیردینا ہیں۔ اس سے دل کو الٹا کر دینا مراد نہیں پوری آیت کریمہ اس طرح ہے۔"اور ہم ان کے دلوں اوران کی آنکھوں کو ایسے ہی پھیردیں گے جیسے وہ پہلی بار بھی اس (قرآن)پر ایمان نہیں لائے اور ہم انھیں ان کی سر کشی ہی میں بھٹکتے چھوڑدیں گے۔"اس آیت کریمہ میں دلوں کو پھیرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے جبکہ قدر یہ کا کہنا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ بندہ ہی اپنے ارادے اور قدرت میں مستقل ہے۔ ان کے برعکس جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنے افعال و اعمال میں مجبور محض ہے۔اسے کوئی اختیار نہیں ہو تا لیکن اہل سنت کا موقف اعتدال پر مبنی ہے کہ بندہ چونکہ اپنے افعال و اعمال کو اپنے اختیار وارادے سے سر انجام دیتا ہے اس لیے قیامت کے دن اسی اختیار کی بنا پر اس سے باز پرس ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ بندے کے افعال کا خالق ہے۔ اس لیے بندے کے افعال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کی جاتی ہے چنانچہ پیش کردہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کی ہے کہ ہم انھیں ان کی سر کشی میں بھٹکتا چھوڑدیں گے۔چونکہ اسباب اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی اختیار پر انسان کا مؤاخذہ ہو گا رہے ان اسباب کے نتائج تو نتائج پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیارمیں ہے لہٰذا نتائج کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہو سکتی ہےاور عمل کرنے والے کی طرف بھی جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے۔"(الصف:61۔5)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی اپنی مخلوق میں تصرف کا مالک و مختار ہےحتی کہ کہ بندوں کے دل جوان کی نیتوں اور مختلف آراءپر مشتمل ہوتے ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کا اختیار چلتا ہے۔وہی ان میں تصرف کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بعد ہی انھیں قدرت حاصل ہوتی ہے گویا یہ عنوان سابق عنوان کا تکملہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بیان کیا گیا تھا۔ واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ انعام میں فر مان ” اور ہم ان کے دلوں کو اور ان کی آنکھوں کو پھیردیں گے ۔ “
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ بکثرت یہ قسم اٹھایا کرتے تھے : ”دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!“
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت اس طرح قسم اٹھاتے تھے۔(لا، وَمُصَرّف القلوب)"دلوں میں تصرف کرنے والے کی قسم۔" (سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث :2092) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ قلب کے جتنے اعمال ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں مثلاً : دل کا ارادہ کرنا اس میں کسی خواہش کا پیدا ہونا نیز ایک حالت سے دوسری حال کی طرف پھرنا وغیرہ۔ (فتح الباري:642/11) 2۔قلب کو قلب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بکثرت ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھرتا رہتا ہے اگرچہ دل کا پھرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی۔ ’’بنو آدم کے تمام دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں گویا وہ ایک دل کی طرح ہیں اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے انھیں پھیرتا رہتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہتے"اے دلوں کو پھیرنے والے!ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6750)(2654) 3۔ دلوں کو پھیرنے کی صفت فعلی ہے جس کا مرجع قدرت ہے فعلی صفات نوعیت کے لحاظ سے قدیم ہیں لیکن بندے سے تعلق کے اعتبار سے حادث ہیں اللہ تعالیٰ ازل ہی سے اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے خالق ہے اس کے سوا ہر چیز مخلوق ہے۔ اس کی صفات میں کوئی صفت مخلوق یا حادث نہیں ہے البتہ فعلی صفات کا بندے سے تعلق حادث ہوتا ہے صفات فعلی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوتی ہیں۔ بہر حال مذکورہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کے دلوں کا مالک ہے انھیں جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے پھیرنے کا ختیار رکھتا ہے۔ کوئی بھی اس صفت میں اس کا شریک نہیں۔ کائنات میں کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بندہ ہر آن اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ایک لمحے کے لیے بھی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور توفیق ہدایت نہ ملے تو دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور آخرت میں سخت ترین عذاب میں گرفتار ہو گا اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ پراٹل ہے کہ بندہ بااختیار اور مکلف ہے اور اسی ارادے واختیار پر قیامت کے دن جز اوسزا مرتب ہو گی۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 214/1)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اور ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں پھیر دیں گے“
حدیث ترجمہ:
مجھ سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے عبد اللہ ابن المبارک نے بیان کیا‘ ان سے موسیٰ بن عقبہ نے‘ ان سے سالم بن عبد اللہ بن عمر نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ قسم اس طرح کھاتے ” قسم اس کی جو دلوں کا پھیر دینے والا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
میں یہ بات نہیں کہوں گا یا یہ کام نہیں کروں گا دلوں کے پھیرنے والے کی قسم دلوں کا پھیرنا یہ بھی اللہ کی صفت ہے اور یہ اسی کے ہاتھ میں ہے وہ اس صفت میں بھی وحدہ لا شریک لہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) frequently used to swear, "No, by the One Who turns the hearts."