تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے عزم کا اظہار کیا تو ان کے ساتھی نے کہا: ان شاء اللہ کہہ دیں لیکن اس یاد دہانی کے باوجود انھوں نے ان شاء اللہ نہ کہا۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2819) دوسری روایت میں ہے کہ فرشتے نے ان شاء اللہ کہنے کی یاد دہانی کرائی لیکن انھوں نے یہ کلمہ نہ کہا بلکہ بھول گئے۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5242) دراصل انھیں اپنے آپ پر اس قدر خود اعتمادی تھی اور ظاہری اسباب پر بھروسا تھا کہ یاد دہانی کے باوجود اس پر عمل نہ کر سکے انھیں اپنی مراد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جس قدر بھی اسباب مہیا ہوں اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا سہارا ضرور لینا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام مشیت الٰہی کا سہارا لیتے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی منشا پوری کرتا مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا اس لیے یاد دہانی کے باوجود وہ ان شاء اللہ کہنا بھول گئے ۔
2۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ ’’کسی چیز کے متعلق یہ کبھی نہ کہیں کہ میں یہ ضرور کروں گا الا یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ (الکھف18۔23) مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے لہٰذا اس قاعدے کو ہر وقت کو ہرملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ فلاں وقت کام کر سکے گا یا نہیں اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہی ہے کہ جو چاہے کر سکے لہٰذا کوئی شخص خواہ پورے صدق دل اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل سے متعلق کوئی بات کرے تو اسے ان شاء اللہ ضرور کہہ لینا چاہیے مگر افسوس کہ کچھ بد نیت قسم کے لوگوں نے ان شاء اللہ کو اپنی بدینتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے۔ ان کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام چلائیں بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ان لوگوں نے اس بابرکت کلمے کو اس قدر بد نام کردیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدےکے ساتھ ان شاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نیت میں فتور ہے ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا ایمان دار آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔