صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
14. باب : اللہ تعالیٰ کو ذات کہہ سکتے ہیں ( اسی طرح شخص بھی کہہ سکتے ہیں ) یہ اس کے اسماء اور صفات ہیں ۔
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
14. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الذَّاتِ وَالنُّعُوتِ وَأَسَامِي اللَّهِ
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
14. Chapter: Adh-Dhat, His Qualities and His Names
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : اللہ تعالیٰ کو ذات کہہ سکتے ہیں ( اسی طرح شخص بھی کہہ سکتے ہیں ) یہ اس کے اسماء اور صفات ہیں ۔
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: Adh-Dhat, His Qualities and His Names)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور خبیب بن عدی ؓ نے مرتے وقت کہا کہ یہ سب تکلیف اللہ کی ذات مقدس کے لیے ہے تو اللہ کے نام کے ساتھ انہوں نے ذات کا لفظ لگا یا ۔
7469.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے شاگرد، بنو زہرہ قبیلے کے حلیف سیدنا اسید بن جاریہ ثقفی ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے دس صحابہ کرام کو کسی مہم پر روانہ کیا۔ ان میں سیدنا خبیب ؓ بھی تھے۔ حارث کی بیٹی نے بتایا کہ جب حارث کے بیٹوں نے انہیں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو سیدنا خبیب نے مجھ سے استرا مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کریں۔ جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو سیدنا خبیب انصاری ؓ نے یہ شعر پڑھے۔ جب مسلمان بن کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا ڈر ہے کس کروٹ کروں میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑے پر وہ برکت دے فزوں۔ پھر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے اسے قتل کر دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اُسی دن اطلاع کر دی جس دن یہ حضرات شہید کیے گئے تھے۔
تشریح:
1۔بنولحیان نے ان دس جاں نثار کو اپنے گھیرے میں لے کر سات کو شہید کر دیا اور تین کو قید کرکے لے گئے۔ ان قیدیوں میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جنھیں بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک انھیں قید رکھنے کے بعد شہید کیا۔ اس واقعے کی تفصیل خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں بیان کی ہے۔ (صحیح البخار، المغازي، حدیث: 4086) 2۔اس حدیث میں لفظ ذات اللہ کے اسم مبارک کے ساتھ بطور مضاف استعمال ہوا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا، اگر غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار کر دیتے، اسی طرح احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں صرف تین دفعہ خلاف واقعہ بات کی، ان میں سے دو مرتبہ تواللہ کی ذات کے متعلق تھی۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء علیہم السلام، حدیث: 3358) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرچیز کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے غوروفکر کرو لیکن اللہ کی ذات کے متعلق اس انداز سے غوروخوض نہ کرو۔ اس کی سند بھی جید ہے۔ (الأسماء والصفات للبیهقي: 420 و سلسلة الأحادیث الصحیحة: 346/4) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل اسلام اس مومن کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اورافضل جہاد اس شخص کا ہے: (منْ جاهَدَ نَفْسَهُ فِي ذاتِ اللّٰہ) ’’جس نے اللہ کی ذات کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔۔۔‘‘ (بدائع الفوائد: 7/2) 3۔حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذات کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی صفات ہوں، پھر اسے ان صفات کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔ نحوی حضرات نے اگرچہ یہ اعتراض کیا ہے کہ لفظ ذات معرفہ استعمال نہیں ہوتا، تاہم اسے کسی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے معرفہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ متکلمین کی اپنی اصطلاح ہے جس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 243/1) بہر حال لفظ ذات کا استعمال باری تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور اس سے مراد نفس شے کا بیان ہے، یعنی بذات خود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات اور صفات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 470/13) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ آیت کریمہ میں نفس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 199/14)
اور خبیب بن عدی ؓ نے مرتے وقت کہا کہ یہ سب تکلیف اللہ کی ذات مقدس کے لیے ہے تو اللہ کے نام کے ساتھ انہوں نے ذات کا لفظ لگا یا ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے شاگرد، بنو زہرہ قبیلے کے حلیف سیدنا اسید بن جاریہ ثقفی ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے دس صحابہ کرام کو کسی مہم پر روانہ کیا۔ ان میں سیدنا خبیب ؓ بھی تھے۔ حارث کی بیٹی نے بتایا کہ جب حارث کے بیٹوں نے انہیں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو سیدنا خبیب نے مجھ سے استرا مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کریں۔ جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو سیدنا خبیب انصاری ؓ نے یہ شعر پڑھے۔ جب مسلمان بن کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا ڈر ہے کس کروٹ کروں میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑے پر وہ برکت دے فزوں۔ پھر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے اسے قتل کر دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اُسی دن اطلاع کر دی جس دن یہ حضرات شہید کیے گئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔بنولحیان نے ان دس جاں نثار کو اپنے گھیرے میں لے کر سات کو شہید کر دیا اور تین کو قید کرکے لے گئے۔ ان قیدیوں میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جنھیں بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک انھیں قید رکھنے کے بعد شہید کیا۔ اس واقعے کی تفصیل خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں بیان کی ہے۔ (صحیح البخار، المغازي، حدیث: 4086) 2۔اس حدیث میں لفظ ذات اللہ کے اسم مبارک کے ساتھ بطور مضاف استعمال ہوا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا، اگر غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار کر دیتے، اسی طرح احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں صرف تین دفعہ خلاف واقعہ بات کی، ان میں سے دو مرتبہ تواللہ کی ذات کے متعلق تھی۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء علیہم السلام، حدیث: 3358) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرچیز کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے غوروفکر کرو لیکن اللہ کی ذات کے متعلق اس انداز سے غوروخوض نہ کرو۔ اس کی سند بھی جید ہے۔ (الأسماء والصفات للبیهقي: 420 و سلسلة الأحادیث الصحیحة: 346/4) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل اسلام اس مومن کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اورافضل جہاد اس شخص کا ہے: (منْ جاهَدَ نَفْسَهُ فِي ذاتِ اللّٰہ) ’’جس نے اللہ کی ذات کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔۔۔‘‘ (بدائع الفوائد: 7/2) 3۔حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذات کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی صفات ہوں، پھر اسے ان صفات کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔ نحوی حضرات نے اگرچہ یہ اعتراض کیا ہے کہ لفظ ذات معرفہ استعمال نہیں ہوتا، تاہم اسے کسی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے معرفہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ متکلمین کی اپنی اصطلاح ہے جس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 243/1) بہر حال لفظ ذات کا استعمال باری تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور اس سے مراد نفس شے کا بیان ہے، یعنی بذات خود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات اور صفات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 470/13) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ آیت کریمہ میں نفس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 199/14)
ترجمۃ الباب:
سیدنا خبیب ؓ نے مرتے وقت کہا: یہ سب تکلیف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لیے۔انہوں نے اللہ تعالیٰ نام کے ساتھ ذات کا لفظ استعمال کیا
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی‘ انہیں زہری نے‘ انہیں عمرو بن ابی سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ ؓ کے شاگردوں میں تھے کہ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر دس اکابر صحابہ کو جن میں خبیب ؓ بھی تھے‘ ان کے ہاں بھیجا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبید ا للہ بن عیاض نے خبر دی کہ حارث کی صاحبزادی زینب نے انہیں بتایا کہ جب لوگ خبیب ؓ کو قتل کرنے کے لیے آمادہ ہوئے (اور قید میں تھے) تو اسی زمانے میں انہوں نے ان سے صفائی کرنے کے لیے استرہ لیا تھا‘ جب وہ لوگ خبیب ؓ کو حرم سے باہر قتل کرنے لے گئے تو انہوں نے یہ اشعار کہے۔
حدیث حاشیہ:
بنو لحیان کے دو سو آدمیوں نے ان کو گھیر لیا۔ سات بزرگ شہید ہو گئے تین کو قید کر کے لے چلے۔ ان ہی میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے جسے بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک ان کو قید رکھ کر قتل کیا۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا ترجمہ یوں کیا ہے جب مسلماں بن کے دنیا سے چلو ں مجھ کو کیا ڈر ہے کسی کروٹ گروں میرا مرنا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑوں پر وہ برکت دے فزوں
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) sent ten persons to bring the enemy's secrets and Khubaib Al-Ansari was one of them. 'Ubaidullah bin 'Iyad told me that the daughter of Al-Harith told him that when they gathered (to kill Khubaib Al Ansari) he asked for a razor to clean his pubic region, and when they had taken him outside the sanctuary of Makkah in order to kill him, he said in verse, "I don't care if I am killed as a Muslim, on any side (of my body) I may be killed in Allah's Cause; for that is for the sake of Allah's very Self; and if He will, He will bestow His Blessings upon the torn pieces of my body." Then Ibn Al-Harith killed him, and the Prophet (ﷺ) informed his companions of the death of those (ten men) on the very day they were killed.