تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یہاں انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے البتہ کتاب مواقیت الصلاۃ میں اسے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:595) یہ واقعہ کسی سفر میں پیش آیا اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق غزوہ خیبر سے واپسی پر یہ واقعہ ہوا۔ (المصنف العبدالرزاق:587/1)
2۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو بیان کیا ہے کہ تمھاری روحیں اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں وہ ان کا مالک ہے جب انھیں قبض کر لیتا ہے تو انسان مردہ شمار ہوتا ہے اسی طرح انسان بے اختیار ہے کہ جب چاہے سو جائے اور جب چاہے بیدار ہو جائے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کر لیا اور دوسری کو ایک مقررہ مدت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔‘‘ (الزمر:39۔42) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مشیت الٰہی کے اثبات کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے جو اپنے مقصود میں بالکل واضح ہے۔