تشریح:
1۔حضرت انبیاء علیہم السلام کے درجات میں باہمی تفاوت کو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’یہ رسول ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے۔‘‘ (البقرة:253) نیز فرمایا: ’’ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘ (بني إسرائیل 55) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سرداروہوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 5940(2278) مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع اور انکسار کے طور پر فرمایا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ میری اس طرح فضیلت ثابت نہ کرو جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین کا پہلو نمایاں ہو۔
2۔اس حدیث کے آخر میں ایک استثناء کا ذکر ہے جس کی وضاحت درج ذیل آیت کریمہ میں ہے۔ ’’اور صور میں پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانی اور زمین میں مخلوق ہو گی۔سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے گا۔‘‘ (الزمر39۔68) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو بے ہوش نہیں ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بے ہوشی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے ہوں یا وہ بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں اس لیے کہ وہ دنیا میں ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مشیت الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ کہ وہ عام ہے اور کائنات کی ہر چیز کو شامل ہے۔