تشریح:
1۔ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو وعظ کر رہے تھے وہ تقریر اس قدر پر تاثیر تھی کہ حاضرین پررقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک شخص نے متاثر ہو کر سوال کر دیا کہ آپ سے زیادہ کوئی علم رکھنے والا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چاہیے تھا کہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے لیکن انھوں نے کہا: یہاں کوئی مجھ سے زیادہ علم والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ انداز پسند نہ آیا اور انھیں بتایا کہ حضرت خضر علیہ السلام میرے ایسے بندے ہیں جو تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اس بنا پر موسیٰ علیہ السلام نے سمندری سفر کرنے کی زحمت کی۔ قرآن کریم میں اس واقعے کی تفصیل ہے کہ پہلے کشتی میں سوراخ کیا، پھر ایک معصوم بچے کو مارڈالا، آخر میں اجرت کے بغیر ایک گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دیا۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر انتہائی اختصار سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں محل استشہاد بھی نہیں بیان ہوا۔ آپ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں درج ذیل آیت کریمہ مذکور ہے: ’’موسیٰ علیہ السلام نے کہا:آپ مجھے ان شاء اللہ صابر پائیں گے اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘ (الکهف 69) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں اس واقعے کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4725) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رفاقت کے دوران صبر کرنے کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا اور اپنے پروگرام کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے پورا عزم کیا لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش کے تابع نہ تھی کہ اسے پورا کرنے دیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام معاملات پر غالب ہوتی ہے کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اسے کوئی عاجز کرنے والا نہیں اس لیے موسیٰ علیہ السلام بھر پور کوشش کے باوجود اپنے پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر ان الفاظ میں اظہار افسوس فرمایا: ’’کاش کہ موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات کا مظاہرہ ہوتا۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4727)