Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
85. Chapter: To raise both hands while saying the Takbir [on opening As-Salat (the prayer)], and while bowing and on raising up the head (after bowing)
باب: رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کرنا (سنت ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To raise both hands while saying the Takbir [on opening As-Salat (the prayer)], and while bowing and on raising up the head (after bowing))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
748.
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرنا چاہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور وہ بیان کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کیا تھا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے بے ہنگم قیل وقال میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے عنوانات کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ٹھوس ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں رفع الیدین سے متعلق دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ ہم بھی ان کا طریقہ اپناتے ہوئے اس سلسلے میں مزید چند احادیث کا حوالہ دیتے ہیں تاکہ قاری کو اس سنت پر عمل کرنے میں سہولت رہے:٭حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے او جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور کہتے تھے رسول اللہ ﷺ بھی نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي، الصلاة:2/73)٭ سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز کا طریقہ بتانے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، پھر اللہ أکبر کہا۔ اس کے بعد رکوع کیا اور اسی طرح ہاتھوں کو بلند کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر بھی رفع الیدین کیا۔ (الخلافیات للبیهقي بحوالہ نصب الرایة:2/415)٭حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے شروع میں، رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور دورکعت پڑھ کر کھڑا ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:744) ٭حضرت ابو حمید ساعدی ؓ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دورکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا تم سچ بیان کرتے ہو، واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:304) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجمع میں حضرت ابو قتادہ، سہل بن سعد ساعدی ؓ اور ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہم موجود تھے۔(صحیح ابن خزیمة:298/2) امام محمد بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:2/298)٭ حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر اپنے ہاتھ کپڑے میں ڈھانپ لیتے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے۔ جب رکوع کرنے لگتے تو ہاتھ کپڑوں سے باہر نکالتے، اللہ أکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے۔جب رکوع سے اٹھتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور رفع الیدین کرتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:896(401)) واضح رہے کہ حضرت وائل بن حجر ؓ یمن کے رہنے والے تھے، 9 اور 10 ہجری میں دو دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ 10ہجری تک رفع الیدین کرتے تھے۔11 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی، لہٰذا آخر عمر تک رفع الیدین کرنا ثابت ہوا ۔٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دن لوگوں سے فرمایا:کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں؟اس کے بعد انھوں نے نماز پڑھی۔ جب تکبیر تحریمہ کہی تو رفع الیدین کیا، پھر جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور تکبیر کہی، پھر سمع الله لمن حمده کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، اس کے بعد فرمایا کہ اسی طرح کیا کرو۔ (سنن الدار قطني:1/291، حدیث:1292، طبع دارالمعرفة، بیروت) ٭حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شروع نماز میں، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:738) واضح رہے کہ بعض روایات کے مطابق حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت ابو حمیدی ساعدی ؓ کی رفع الیدین کے متعلق تصدیق کرنے والوں میں ہیں جبکہ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں اسے بیان کیا تھا۔ (فتح الباري:397/2)٭ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:868) (2) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کو بیان کرنے والے مندرجہ ذیل صحابہ ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن عمر٭حضرت مالک بن حویرث٭حضرت ابو بکر صدیق٭حضرت عمر فاروق٭حضرت علی٭حضرت ابو حمید ساعدی٭حضرت وائل بن حجر٭حضرت ابو موسیٰ اشعری٭حضرت ابو ہریرہ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم۔ ان کے علاوہ حضرت سہل بن سعدساعدی٭ابو اسید ساعدی اور محمد بن مسلمہ٭حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم حضرت ابو حمید ساعدی کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں۔ حدیث متواتر کی تعریف یہ ہے کہ جسے کم از کم دس راوی بیان کریں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں۔ اس بنا پر رفع الیدین کا اثبات قطعئ الثبوت ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں، نیز الکتانی، ابن جوزی، حافظ ابن حجر، ابن حزم، سیوطی، العراقی، سخاوی اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ ہم نے رفع الیدین کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔ والله المستعان۔ امام بخاری ؒ نے اس سنت متواترہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک مستقل رسالہ جزء رفع الیدین بھی لکھا ہے جو استاذی المکرم شاہ بدیع الدین راشدی ؒ کی تحقیق وتخریج سے مطبوع ومتداول ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
729
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
737
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
737
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
737
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنا پہلے بیان ہو چکا ہے، اب دوسرے دو مقام، یعنی رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا اسے بیان کیا جائے گا۔
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرنا چاہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور وہ بیان کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے بے ہنگم قیل وقال میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے عنوانات کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ٹھوس ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں رفع الیدین سے متعلق دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ ہم بھی ان کا طریقہ اپناتے ہوئے اس سلسلے میں مزید چند احادیث کا حوالہ دیتے ہیں تاکہ قاری کو اس سنت پر عمل کرنے میں سہولت رہے:٭حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے او جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور کہتے تھے رسول اللہ ﷺ بھی نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي، الصلاة:2/73)٭ سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز کا طریقہ بتانے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، پھر اللہ أکبر کہا۔ اس کے بعد رکوع کیا اور اسی طرح ہاتھوں کو بلند کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر بھی رفع الیدین کیا۔ (الخلافیات للبیهقي بحوالہ نصب الرایة:2/415)٭حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے شروع میں، رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور دورکعت پڑھ کر کھڑا ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:744) ٭حضرت ابو حمید ساعدی ؓ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دورکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا تم سچ بیان کرتے ہو، واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:304) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجمع میں حضرت ابو قتادہ، سہل بن سعد ساعدی ؓ اور ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہم موجود تھے۔(صحیح ابن خزیمة:298/2) امام محمد بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:2/298)٭ حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر اپنے ہاتھ کپڑے میں ڈھانپ لیتے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے۔ جب رکوع کرنے لگتے تو ہاتھ کپڑوں سے باہر نکالتے، اللہ أکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے۔جب رکوع سے اٹھتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور رفع الیدین کرتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:896(401)) واضح رہے کہ حضرت وائل بن حجر ؓ یمن کے رہنے والے تھے، 9 اور 10 ہجری میں دو دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ 10ہجری تک رفع الیدین کرتے تھے۔11 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی، لہٰذا آخر عمر تک رفع الیدین کرنا ثابت ہوا ۔٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دن لوگوں سے فرمایا:کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں؟اس کے بعد انھوں نے نماز پڑھی۔ جب تکبیر تحریمہ کہی تو رفع الیدین کیا، پھر جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور تکبیر کہی، پھر سمع الله لمن حمده کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، اس کے بعد فرمایا کہ اسی طرح کیا کرو۔ (سنن الدار قطني:1/291، حدیث:1292، طبع دارالمعرفة، بیروت) ٭حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شروع نماز میں، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:738) واضح رہے کہ بعض روایات کے مطابق حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت ابو حمیدی ساعدی ؓ کی رفع الیدین کے متعلق تصدیق کرنے والوں میں ہیں جبکہ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں اسے بیان کیا تھا۔ (فتح الباري:397/2)٭ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:868) (2) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کو بیان کرنے والے مندرجہ ذیل صحابہ ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن عمر٭حضرت مالک بن حویرث٭حضرت ابو بکر صدیق٭حضرت عمر فاروق٭حضرت علی٭حضرت ابو حمید ساعدی٭حضرت وائل بن حجر٭حضرت ابو موسیٰ اشعری٭حضرت ابو ہریرہ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم۔ ان کے علاوہ حضرت سہل بن سعدساعدی٭ابو اسید ساعدی اور محمد بن مسلمہ٭حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم حضرت ابو حمید ساعدی کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں۔ حدیث متواتر کی تعریف یہ ہے کہ جسے کم از کم دس راوی بیان کریں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں۔ اس بنا پر رفع الیدین کا اثبات قطعئ الثبوت ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں، نیز الکتانی، ابن جوزی، حافظ ابن حجر، ابن حزم، سیوطی، العراقی، سخاوی اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ ہم نے رفع الیدین کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔ والله المستعان۔ امام بخاری ؒ نے اس سنت متواترہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک مستقل رسالہ جزء رفع الیدین بھی لکھا ہے جو استاذی المکرم شاہ بدیع الدین راشدی ؒ کی تحقیق وتخریج سے مطبوع ومتداول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qilaba (RA): I saw Malik bin Huwairith saying Takbir and raising both his hands (on starting the prayers and raising his hands on bowing and also on raising his head after bowing. Malik bin Huwairith said, "Allah's Apostle (ﷺ) did the same."