Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To what level should one raise one's hand)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابو حمید ساعدی ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا۔
749.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، آپ نے نماز کے آغاز میں اللہ أکبر کہا۔ تکبیر کہتے وقت آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے برابر کر لیا۔ جب آپ نے رکوع کے لیے اللہ أکبر کہا تو بھی ایسا کیا۔۔ جب سمع الله لمن حمده کہا تب بھی اسی طرح کیا اور ربنا ولك الحمد بھی کہا۔ آپ یہ عمل سجدہ کرتے وقت نہیں کرتے تھے اور نہ اس وقت جب سجدے سے سر اٹھاتے تھے۔
تشریح:
(1) رفع ا لیدین کرتے وقت نمازی اپنے ہاتھوں کو کہاں تک اٹھائے؟ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو روایت پیش کی ہے اس میں کندھوں کے برابر اٹھانے کا ذکر ہے۔ جمہور ائمہ اسی بات کے قائل ہیں کہ نمازی اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔ صحیح مسلم میں حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی حدیث کے مطابق کانوں کی لوتک اٹھانے کا ذکر ہے۔ سنن ابو داود میں وائل بن حجر ؓ کی روایت میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا بیان ہوا ہے۔ ابو ثور نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اس طرح اٹھائے جائیں کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں کندھوں کے مقابل ہوجائیں، انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر اور باقی انگلیاں کانوں کے اوپر والے حصے کے سامنے ہوجائیں۔ اس طرح منكبين، اذنين اور فروع الاذنين والی تمام روایتیں اکٹھی ہوجاتی ہیں اور مذہب کا اختلاف بھی ختم ہوجاتا ہے۔ (فتح الباري:287/2) ان روایات کی بنا پر رفع الیدین کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک یا کانوں تک اٹھانا دونوں طرح جائز ہے مگر زیادہ تر احادیث میں کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں کے ساتھ کانوں کو پکڑنا یا انھیں چھونا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ایسا کرنا خود ساختہ عمل ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (2) واضح رہے کہ احناف کے نزدیک نمازی مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اور عورت اپنے کندھوں تک اٹھائے،اس لیے کہ یہ زیادہ پردے کا باعث ہے۔ اس تفریق کے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، لہٰذا رفع الیدین کی حد بندی کے متعلق مرد اور عورتیں برابر ہیں۔ (فتح الباري:287/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
730
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
738
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
738
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
738
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس معلق روایت کو خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری، الاذان،حدیث:828) حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں یہ بیان کیا، جن کی تعداد دس تک بتائی جاتی ہے۔ان میں حضرت ابو قتادہ،حضرت سہل بن سعد،حضرت ابو اسید ساعدی،حضرت محمد بن مسلمہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم بھی تھے۔بعض روایات میں صراحت ہے کہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مذکور جماعت کے سامنے عملا نماز پڑھ کر دکھائی اور تمام نے بیک زبان ہوکر اس کی تصدیق کی تھی۔(فتح الباری:2/397)
اور ابو حمید ساعدی ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، آپ نے نماز کے آغاز میں اللہ أکبر کہا۔ تکبیر کہتے وقت آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے برابر کر لیا۔ جب آپ نے رکوع کے لیے اللہ أکبر کہا تو بھی ایسا کیا۔۔ جب سمع الله لمن حمده کہا تب بھی اسی طرح کیا اور ربنا ولك الحمد بھی کہا۔ آپ یہ عمل سجدہ کرتے وقت نہیں کرتے تھے اور نہ اس وقت جب سجدے سے سر اٹھاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رفع ا لیدین کرتے وقت نمازی اپنے ہاتھوں کو کہاں تک اٹھائے؟ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو روایت پیش کی ہے اس میں کندھوں کے برابر اٹھانے کا ذکر ہے۔ جمہور ائمہ اسی بات کے قائل ہیں کہ نمازی اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔ صحیح مسلم میں حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی حدیث کے مطابق کانوں کی لوتک اٹھانے کا ذکر ہے۔ سنن ابو داود میں وائل بن حجر ؓ کی روایت میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا بیان ہوا ہے۔ ابو ثور نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اس طرح اٹھائے جائیں کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں کندھوں کے مقابل ہوجائیں، انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر اور باقی انگلیاں کانوں کے اوپر والے حصے کے سامنے ہوجائیں۔ اس طرح منكبين، اذنين اور فروع الاذنين والی تمام روایتیں اکٹھی ہوجاتی ہیں اور مذہب کا اختلاف بھی ختم ہوجاتا ہے۔ (فتح الباري:287/2) ان روایات کی بنا پر رفع الیدین کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک یا کانوں تک اٹھانا دونوں طرح جائز ہے مگر زیادہ تر احادیث میں کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں کے ساتھ کانوں کو پکڑنا یا انھیں چھونا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ایسا کرنا خود ساختہ عمل ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (2) واضح رہے کہ احناف کے نزدیک نمازی مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اور عورت اپنے کندھوں تک اٹھائے،اس لیے کہ یہ زیادہ پردے کا باعث ہے۔ اس تفریق کے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، لہٰذا رفع الیدین کی حد بندی کے متعلق مرد اور عورتیں برابر ہیں۔ (فتح الباري:287/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے اپنے ساتھیوں میں بیٹھ کر بیان کیا کہ نبی ﷺاپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں (کندھوں) تک اٹھا کر لے جاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور ربنا و لك الحمد کہتے۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): I saw Allah's Apostle (ﷺ) opening the prayer with the Takbir and raising his hands to the level of his shoulders at the time of saying the Takbir, and on saying the Takbir for bowing he did the same; and when he said, "Sami a-l-lahu Liman hamida ", he did the same and then said, "Rabbana wa laka-l-hamd." But he did not do the same on prostrating and on lifting the head from it."