تشریح:
1۔ان دونوں احادیث قدسیہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف قرآن مجید کے ساتھ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے حسب موقع کلام کرتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ احادیث کے مضامین کو اللہ تعالیٰ کا قول قرار دیا ہے حالانکہ یہ احادیث قرآن کریم کے علاوہ ہیں۔ اس سے معتزلہ اور جہمیہ کی تردید بھی مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
2۔قبل ازیں عنوان میں ایک آیت کا حوالہ تھا، چنانچہ مسلمان صلح حدیبیہ کے موقع پر بہت رنجیدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ان سے وعدہ کیا تھا کہ انھیں بلاشرکت غیرے ایک فتح حاصل ہوگی جبکہ منافقین اس وعدے کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ یہ وعدہ بھی اللہ تعالیٰ کا کلام تھا جو قرآن مجید کے علاوہ تھا۔ واللہ أعلم۔