تشریح:
اس دعائے مبارکہ میں ہے کہ اے اللہ! تیرا کلام برحق ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کا کلام مبنی برحقیقت ہے۔ اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام میں حروف اور آواز کے منکر ہیں کیونکہ اس حدیث میں کلام الٰہی کو "قول" سے تعبیر کیا گیا ہے جو آواز اور حروف پر مشتمل ہوتا ہے نیز اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے قول کی صفت "حق" بیان ہوئی ہے جس کے معنی ثابت اورلازوال کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے قول میں ہدایت اور عدل ہے جبکہ منافقین اور کفار اس کی حقانیت سے پہلوتہی کر کے اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں ایسا کردار ادا کرنے سے انھیں خود نقصان ہوگا۔ واللہ المستعان۔