صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
23. باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ المعارج میں ) فرمان فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں،
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
23. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ المَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ} [المعارج: 4]،
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
23. Chapter: “The angels and the Ruh ascend to Him…”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ المعارج میں ) فرمان فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں،
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “The angels and the Ruh ascend to Him…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) فرمان «إليه يصعد الكلم الطيب» اس کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ابوذر ؓکو جب نبی کریم ﷺ کے بعثت کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھے اس شخص کی خبر لا کر دو جو کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ اور مجاہد نے کہا نیک عمل پاکیزہ کلمے کو اٹھا لیتا ہے۔ (اللہ تک پہنچا دیتا ہے) «ذي المعارج» سے مراد فرشتے ہیں جو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ تشریح اس باب میں امام بخاری نےاللہ جل جلالہ کےعلو اورفوقیت کےاثبات کےدلائل بیان کیے ہیں۔اہل حدیث کااس پر اتقاق ہےکہ اللہ تعالی جہت فوق میں ہےاور اللہ کو اوپر سمجھنا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔جاہل سےجاہل سے شخص جب مصیبت کے وقت فریاد کرتاہے تومنہ اوپر اٹھا کرفریاد کرتاہےمگر جہمیہ اورانکے اتباع نےبرخلاف شریعت وبرخلاف فطرت انسانی فوقیت رحمانی کاانکار کیا ہے۔چنانچہ منقول ہےکہ جہم نماز میں بھی بجائے سبحان ربی الاعلیٰ کےسبحان ربی الاسفل کہاکرتا لعنتہ اللہ علیہ۔
7499.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ مصیبت اور پریشانی کے وقت درج زیل کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے تھے: ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی صاحب عظمت اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی عرش عظیم کا مالک ہے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی آسمانوں اور عرش کریم کا مالک ہے۔“۔
تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق عرش کے متعلق صراحت ہے کہ وہ عظیم اور کریم ہے۔ اس سے پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ۔کہ عرش عظیم تمام مخلوقات کے لیے بطور چھت ہے اور قرآن کریم میں ہےکہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ 2۔اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو کو ثابت کیا ہے۔ لیکن شارح صحیح بخاری علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کیے ہوئے عنوان کے مطابق نہیں ہےاس کا تعلق گزشتہ عنوان سے ہے۔شاید کاتب نے غلطی سے اس حدیث کو یہاں بیان کردیا ہے۔ (عمدة القاري:627/16) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کی نفی کو اس حدیث سے ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري:516/13) 3۔ہمارے نزدیک علامہ عینی اور ابن منیر کا موقف محل نظر علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی بات سے ان لوگوں کو تقویت پہنچ سکتی ہے جن کا دعوی ہے کہ صحیح بخاری ایک زیر تالیف کتاب تھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے مکمل نہ کر پائے تھے کہ داعی اجل کولبیک کہہ دیا حالانکہ یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سولہ سال کی مدت میں چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے صحیح بخاری کو مرتب کیا پھر اسے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ اور امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے پیش کیا ان سب شیوخ نے اس مبارک مجموعے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اس کی صحت کے متعلق شہادت دی۔ اس کے بعد نوے (90) ہزار تلامذہ نے صحیح بخاری کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے براہ راست سنا ایسے حالات میں یہ ناممکن ہے کہ مذکورہ حدیث کا تعلق گزشتہ عنوان سے ہے کسی کاتب نے غلطی سے اسے یہاں بیان کردیا ہے دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی باریک بینی اوروقت فہم کا ادراک علامہ عینی نہیں کر سکے چنانچہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے دو عنوان قائم کیے ہیں پہلے باب میں استواء علی العرش بیان کیا تھا جوعلو ذات باری تعالیٰ کے لیے واضح دلیل ہے اور مذکورہ عنوان میں ایک دوسری حیثیت سے اسے ثابت کیا ہے کہ ذات باری کی طرف عروج ملائکہ اور صعودکلمات ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں علو باری تعالیٰ کی واضح دلیل ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے صعود کلمات طیبات کو ثابت کیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرنے کے لیے تم جو تسبیح و تہلیل کرتے ہوتو یہ کلمات اللہ کے عرش کے ہاں پہنچ کر اس کے گرد گھومتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کی طرح ان کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے وہ اللہ کے حضور کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3809) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پریشانی کے وقت مذکورہ کلمات کہتے تو یہ کلمات بھی اللہ تعالیٰ کے عرش کا طواف کرتے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے صعود کلمات (کلمات کا اوپر کی طرف چڑھنا) ثابت کیا ہے جو علو باری تعالیٰ کی دلیل ہے۔ 4۔شارح صحیح بخاری ابن منیر کے متعلق تویہی کہا جا سکتا ہے کہ قائل کے قول کی ایسی تشریح کی جائے جسے وہ خود پسند نہیں کرتا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت فوق ثابت کرنے کے لیے مستقل دو عنوان قائم کیے ہیں لیکن ابن منیر لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کی نفی کو ثابت کیا ہے۔دراصل جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی جہت کا انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کو جہت کے ساتھ موصوف کردیا تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آئے گا اور تمام جسم تو باہم ایک جیسے ہوتے ہیں اس سے تمثیل لازم آئے گی اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے جہت فوق کہنے والوں کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے کہ اس جسم سے وہ چیز مراد ہے جو مختلف چیزوں سے مل کرو جود میں آتی ہے اور ان اجزا کے بغیر وہ چیز قائم نہیں رہ سکتی؟ اللہ تعالیٰ کے لیے اس قسم کا جسم کوئی بھی ثابت نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت علو کے اثبات سے ایسا جسم ثابت ہوتا ہے جو بذات خود قائم ہے اور اپنے شایان شان صفات سے متصف ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ابن منیر کا دعوی ثبوت کے بغیر ہے اور اللہ تعالیٰ یقیناً ایک ذات ہے جو بذات خود قائم اور باکمال صفات سے متصف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کو ثابت کیا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) فرمان «إليه يصعد الكلم الطيب» اس کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ابوذر ؓکو جب نبی کریم ﷺ کے بعثت کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھے اس شخص کی خبر لا کر دو جو کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ اور مجاہد نے کہا نیک عمل پاکیزہ کلمے کو اٹھا لیتا ہے۔ (اللہ تک پہنچا دیتا ہے) «ذي المعارج» سے مراد فرشتے ہیں جو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ تشریح اس باب میں امام بخاری نےاللہ جل جلالہ کےعلو اورفوقیت کےاثبات کےدلائل بیان کیے ہیں۔اہل حدیث کااس پر اتقاق ہےکہ اللہ تعالی جہت فوق میں ہےاور اللہ کو اوپر سمجھنا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔جاہل سےجاہل سے شخص جب مصیبت کے وقت فریاد کرتاہے تومنہ اوپر اٹھا کرفریاد کرتاہےمگر جہمیہ اورانکے اتباع نےبرخلاف شریعت وبرخلاف فطرت انسانی فوقیت رحمانی کاانکار کیا ہے۔چنانچہ منقول ہےکہ جہم نماز میں بھی بجائے سبحان ربی الاعلیٰ کےسبحان ربی الاسفل کہاکرتا لعنتہ اللہ علیہ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ مصیبت اور پریشانی کے وقت درج زیل کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے تھے: ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی صاحب عظمت اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی عرش عظیم کا مالک ہے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی آسمانوں اور عرش کریم کا مالک ہے۔“۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے مطابق عرش کے متعلق صراحت ہے کہ وہ عظیم اور کریم ہے۔ اس سے پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ۔کہ عرش عظیم تمام مخلوقات کے لیے بطور چھت ہے اور قرآن کریم میں ہےکہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ 2۔اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو کو ثابت کیا ہے۔ لیکن شارح صحیح بخاری علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کیے ہوئے عنوان کے مطابق نہیں ہےاس کا تعلق گزشتہ عنوان سے ہے۔شاید کاتب نے غلطی سے اس حدیث کو یہاں بیان کردیا ہے۔ (عمدة القاري:627/16) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کی نفی کو اس حدیث سے ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري:516/13) 3۔ہمارے نزدیک علامہ عینی اور ابن منیر کا موقف محل نظر علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی بات سے ان لوگوں کو تقویت پہنچ سکتی ہے جن کا دعوی ہے کہ صحیح بخاری ایک زیر تالیف کتاب تھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے مکمل نہ کر پائے تھے کہ داعی اجل کولبیک کہہ دیا حالانکہ یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سولہ سال کی مدت میں چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے صحیح بخاری کو مرتب کیا پھر اسے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ اور امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے پیش کیا ان سب شیوخ نے اس مبارک مجموعے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اس کی صحت کے متعلق شہادت دی۔ اس کے بعد نوے (90) ہزار تلامذہ نے صحیح بخاری کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے براہ راست سنا ایسے حالات میں یہ ناممکن ہے کہ مذکورہ حدیث کا تعلق گزشتہ عنوان سے ہے کسی کاتب نے غلطی سے اسے یہاں بیان کردیا ہے دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی باریک بینی اوروقت فہم کا ادراک علامہ عینی نہیں کر سکے چنانچہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے دو عنوان قائم کیے ہیں پہلے باب میں استواء علی العرش بیان کیا تھا جوعلو ذات باری تعالیٰ کے لیے واضح دلیل ہے اور مذکورہ عنوان میں ایک دوسری حیثیت سے اسے ثابت کیا ہے کہ ذات باری کی طرف عروج ملائکہ اور صعودکلمات ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں علو باری تعالیٰ کی واضح دلیل ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے صعود کلمات طیبات کو ثابت کیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرنے کے لیے تم جو تسبیح و تہلیل کرتے ہوتو یہ کلمات اللہ کے عرش کے ہاں پہنچ کر اس کے گرد گھومتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کی طرح ان کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے وہ اللہ کے حضور کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3809) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پریشانی کے وقت مذکورہ کلمات کہتے تو یہ کلمات بھی اللہ تعالیٰ کے عرش کا طواف کرتے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے صعود کلمات (کلمات کا اوپر کی طرف چڑھنا) ثابت کیا ہے جو علو باری تعالیٰ کی دلیل ہے۔ 4۔شارح صحیح بخاری ابن منیر کے متعلق تویہی کہا جا سکتا ہے کہ قائل کے قول کی ایسی تشریح کی جائے جسے وہ خود پسند نہیں کرتا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت فوق ثابت کرنے کے لیے مستقل دو عنوان قائم کیے ہیں لیکن ابن منیر لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کی نفی کو ثابت کیا ہے۔دراصل جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی جہت کا انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کو جہت کے ساتھ موصوف کردیا تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آئے گا اور تمام جسم تو باہم ایک جیسے ہوتے ہیں اس سے تمثیل لازم آئے گی اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے جہت فوق کہنے والوں کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے کہ اس جسم سے وہ چیز مراد ہے جو مختلف چیزوں سے مل کرو جود میں آتی ہے اور ان اجزا کے بغیر وہ چیز قائم نہیں رہ سکتی؟ اللہ تعالیٰ کے لیے اس قسم کا جسم کوئی بھی ثابت نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت علو کے اثبات سے ایسا جسم ثابت ہوتا ہے جو بذات خود قائم ہے اور اپنے شایان شان صفات سے متصف ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ابن منیر کا دعوی ثبوت کے بغیر ہے اور اللہ تعالیٰ یقیناً ایک ذات ہے جو بذات خود قائم اور باکمال صفات سے متصف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کو ثابت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ابو جمرہ نے سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا: سیدنا ابو ذرؓ کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا: جاؤ اس آدمی کی خطر لاؤ جو کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں¤ امام مجاہد نے کہا: نیک اعمال،پاکیزہ کلمات کو اٹھا لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ”ذی المعارج“ سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتے ہیں¤
٭فائدہ: اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے ،وہاں سے وحی کی خبریں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ اوپر ہونے ہی کا تھا
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالعالیہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا پریشانی کے وقت کرتے تھے « لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَلِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ» کوئی معبود اللہ کے سوا نہیں جو عظیم ہے اور بردبار ہے، کوئی معبود اللہ کے سوا نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے، کوئی معبود اللہ کے سوا نہیں جو آسمانوں کا رب ہے اور عرش کریم کا رب ہے۔
حدیث حاشیہ:
ا س میں عرش عظیم کا ذکرہے باب سے یہی مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) used to say at the time of difficulty, "None has the right to be worshipped but Allah, the Majestic, the Most Forbearing. None has the right to be worshipped but Allah, the Lord of the Tremendous Throne. None has the right to be worshipped but Allah, the Lord of the Heavens and the Lord of the Honourable Throne. (See Hadith No. 357, Vol. 8)