تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ حصول علم میں جہاں طالب علم کی کاوش ضروری ہے، وہاں اس سے زیادہ انابت الی اللہ کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر مقصد میں کامیابی دشوار ہے۔ تحصیل علم کے متعلق انسان کو اپنی ذہانت و فطانت پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ عطیہ الٰہی اس کی مہر بانی کے بغیر ناممکن ہے۔ اس کی مہربانی صالحین کی دعا سے ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ طالب علم بزرگوں کی خدمت میں حاضری دے اور پورے آداب واحترام کے ساتھ ان کے احکام کی بجا آوری کرے۔
2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص شفقت حاصل ہونے کے متعلق دو واقعات کتب حدیث میں ملتے ہیں ان میں سے ایک کا تعلق خدمت سے ہے جبکہ دوسرا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب و احترام کی بجا آوری سے متعلق ہے۔
3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا تشریف لے گئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خدمت کے طور پر آپ کی سہولت کے لیے پانی بھر کردیا۔ جب آپ باہر سے تشریف لائے تو دریافت فرمایا کہ پانی کس نے رکھا تھا؟ معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ خدمت انجام دی ہے، آپ خوش ہوئے اور مذکورہ دعا فرمائی ۔(صحیح البخاري، الوضو، حدیث: 143)
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما کو تہجد کی نماز میں اپنے برابر دائیں جانب کھڑا کیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے دوبارہ انھیں اپنے برابر کھڑا کر لیا۔ وہ پھر پیچھے ہو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں کیا ہے؟ میں تمھیں بار بار اپنے برابر کھڑا کرتا ہوں اور تم پیچھے ہو جاتے ہو؟‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ آپ کے برابر کھڑا ہو جبکہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور رسول کے برابرکھڑا ہونا بے ادبی ہے۔ آپ اس جواب سے خوش ہوئے اور دعا فرمائی۔ (مسند احمد: 330/1، والصحیحة للألبانی حدیث: 606) ان واقعات سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی خدمت اور ان کا ادب واحترام ان کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔