Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To place the right hand on the left [in As-Salt (the prayers)])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
751.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھے۔ ابوحازم رازی نے کہا کہ وہ (حضرت سہل بن سعد ؓ) اس حکم کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ (ایک اور راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوب کیا جاتا تھا، یہ الفاظ نہیں کہے کہ وہ اس حکم کو منسوب کرتے تھے۔
تشریح:
(1) مسئلہ مذکور کے متعلق پہلا اختلاف وضع وار سال کا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں ہاتھ باندھے جائیں۔ انھیں کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ دوسرا اختلاف کیفیت سے متعلق ہے کہ ہاتھ کس طرح باندھے جائیں؟اور تیسرا اختلاف محل وضع کا ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟حدیث بالا میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور کچھ کیفیت کا بھی بیان ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھا جائے۔ لیکن کلائی کے کس مقام پر رکھا جائے اس کی وضاحت حضرت وائل بن حجر ؓ کی روایت میں بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں کی پشت پر، جوڑ پر اور کلائی پر رکھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:727) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب نماز شروع کی تو اللہ اکبر کے بعد آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:896(401)) ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:252) محل وضع کے متعلق بھی صراحت ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمة، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاة……1/243، حدیث:479) حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی حدیث کے مطابق بائیں کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔سینے پر رکھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں کے رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسندأحمد:226/5) زیر ناف ہاتھ باندھنے کی ایک حدیث بھی صحیح نہیں۔ سینے پر ہاتھ باندھنا عاجزی کی علامت، نماز میں فعل عبث سے رکاوٹ، دل کی حفاظت اور خشوع کے زیادہ مناسب ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگلا عنوان خشوع کے متعلق قائم کیا ہے۔ چونکہ دل نیت کا محل ہے، عام طور پر انسان جس چیز کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اس پر دونوں ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ (فتح الباري:291/2) ان روایات کے پیش نظر ہمیں بھی دایاں ہاتھ بائیں پر اس طرح رکھنا چاہیے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر،جوڑ اور کلائی پر آجائے۔ پھر دونوں کو سینے پر رکھا جائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہوجائے۔ گویا ہاتھ باندھنے کے تین طریقے ہیں:٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے۔٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھا جائے۔٭دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھا جائے۔ کلائی کو کلائی پر رکھ کر کہنی کو پکڑنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ (2) ہاتھ باندھنے کے متعلق مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف ہاتھ رکھیں۔ یہ تفریق غیر شرعی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مرد اور عورت کے طریقۂ نماز میں کوئی فرق نہیں بتایا۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ہاتھ زیر ناف بندھے جائیں تو بایاں ہاتھ اوپر اور دایاں نیچے ہوتا ہے جبکہ ہمیں اس کے برعکس حکم دیا گیا ہے، یعنی دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں نیچے ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
732
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
740
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
740
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
740
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھے۔ ابوحازم رازی نے کہا کہ وہ (حضرت سہل بن سعد ؓ) اس حکم کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ (ایک اور راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوب کیا جاتا تھا، یہ الفاظ نہیں کہے کہ وہ اس حکم کو منسوب کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسئلہ مذکور کے متعلق پہلا اختلاف وضع وار سال کا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں ہاتھ باندھے جائیں۔ انھیں کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ دوسرا اختلاف کیفیت سے متعلق ہے کہ ہاتھ کس طرح باندھے جائیں؟اور تیسرا اختلاف محل وضع کا ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟حدیث بالا میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور کچھ کیفیت کا بھی بیان ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھا جائے۔ لیکن کلائی کے کس مقام پر رکھا جائے اس کی وضاحت حضرت وائل بن حجر ؓ کی روایت میں بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں کی پشت پر، جوڑ پر اور کلائی پر رکھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:727) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب نماز شروع کی تو اللہ اکبر کے بعد آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:896(401)) ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:252) محل وضع کے متعلق بھی صراحت ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمة، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاة……1/243، حدیث:479) حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی حدیث کے مطابق بائیں کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔سینے پر رکھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں کے رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسندأحمد:226/5) زیر ناف ہاتھ باندھنے کی ایک حدیث بھی صحیح نہیں۔ سینے پر ہاتھ باندھنا عاجزی کی علامت، نماز میں فعل عبث سے رکاوٹ، دل کی حفاظت اور خشوع کے زیادہ مناسب ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگلا عنوان خشوع کے متعلق قائم کیا ہے۔ چونکہ دل نیت کا محل ہے، عام طور پر انسان جس چیز کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اس پر دونوں ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ (فتح الباري:291/2) ان روایات کے پیش نظر ہمیں بھی دایاں ہاتھ بائیں پر اس طرح رکھنا چاہیے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر،جوڑ اور کلائی پر آجائے۔ پھر دونوں کو سینے پر رکھا جائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہوجائے۔ گویا ہاتھ باندھنے کے تین طریقے ہیں:٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے۔٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھا جائے۔٭دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھا جائے۔ کلائی کو کلائی پر رکھ کر کہنی کو پکڑنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ (2) ہاتھ باندھنے کے متعلق مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف ہاتھ رکھیں۔ یہ تفریق غیر شرعی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مرد اور عورت کے طریقۂ نماز میں کوئی فرق نہیں بتایا۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ہاتھ زیر ناف بندھے جائیں تو بایاں ہاتھ اوپر اور دایاں نیچے ہوتا ہے جبکہ ہمیں اس کے برعکس حکم دیا گیا ہے، یعنی دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں نیچے ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک ؓ علیہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد ؓ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات آنحضرت ﷺ تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم يذكر سهل ابن سعد في حديثه محل وضع اليدين من الجسد، وهو عندنا على الصدر لما ورد في ذلك من أحاديث صريحة قوية. فمنها حديث وائل بن حجر قال: "صليت مع النبي - صلى الله عليه وسلم - فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره"، أخرجه ابن خزيمة في صحيحه ذكره الحافظ في بلوغ المرام والدراية والتخليص وفتح الباري. والنووي في الخلاصة وشرح المهذب وشرح مسلم للاحتجاج به على ما ذهبت إليه الشافعية من وضع اليدين على الصدر، وذكرهما هذا الحديث في معرض الاحتجاج به، وسكوتهما عن الكلام فيه يدل على أن حديث وائل هذا عندهما صحيح أو حسن قابل للاحتجاج۔(مرعاة المفاتیح )یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔ جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔ اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔ اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔ اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماك عن قبیصة ابن هلب عن أبیه قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ینصرف عن یمینه وعن یسارہ و رأیته یضع هذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواة هذاالحدیث کلهم ثقات و إسنادہ متصل۔(تحفة الأحوذي، ص: 216) یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔ تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے: حدثنا أبوتوبة حدثنا الهیثم یعني ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبهما علی صدرہ۔(حوالہ مذکور) یعنی ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ہیثم یعنی ابن حمیدنے ثور سے بیان کیا، انھوں نے سلیمان بن موسیٰ سے، انھوں نے طاؤس سے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے اوران کو خوب مضبوطی کے ساتھ ملاکر سینہ پر باندھا کرتے تھے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد کے صفحہ: 275 پر یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے (صلی اللہ علیه وسلم) چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابن عباس ؓ نے آیت کریمہ ﴿فصل لربك وانحر﴾ کی تفسیر میںروایت کیاہے یعنی ضع یدك الیمنی علی الشمال عندالنحر۔یعنی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں پر رکھ کر سینہ پر باندھو۔ حضرت علی ؓ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔ بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے اس بارے میں فرمایاہے : ورأی بعضهم أن یضعهما فوق السرة ورأی بعضهم أن یضعهما تحت السرة وکل ذلك واسعة عندهم۔یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔ اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ ؓ سے روایت کیاہے کہ أن علیا قال السنة وضع الکف علی تحت السرة۔یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت في إسناد هذاالحدیث عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي وعلیه مدارهذاالحدیث وهوضعیف لایصلح للاحتجاج۔یعنی میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں وهو حدیث متفق علی تضعیفه فإن عبدالرحمن بن إسحاق ضعیف بالاتفاق۔یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔ اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ '' فتح الغفور في وضع الأیدي علی الصدور'' میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرة۔ (ناف کے نیچے) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرة کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائید مسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرة والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے: حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبري عن علقمة بن وائل الحضرمي عن أبیه قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم واضعا یمینه علی شماله في الصلوٰة۔یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔ دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرة کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔ پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔ جو حضرات اس سنت پر عمل نہیں کرتے نہ کریں مگر ان کو چاہئیے کہ اس سنت کے عاملین پر اعتراض نہ کریں۔ ان پر زبان طنزنہ کھولیں۔ اللہ پاک جملہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر الجھنے کی عادت پر تائب ہوکر اپنے دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔ واللہ هوالموفق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sa'd (RA): The people were ordered to place the right hand on the left forearm in the prayer. Abu Hazim said, "I knew that the order was from the Prophet."