تشریح:
امام بخاری ؒ نے پہلے ثابت کیا تھا کہ نمازی بحالت اقتدا امام کی حرکات وسکنات پر مطلع ہونے کے لیے امام کی طرف دیکھ سکتا ہے اور اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ پھر اس بات کو ثابت کیا کہ بحالت نماز آسمان کی طرف نظر کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اب ایک تیسری صورت بیان کرتے ہیں کہ نمازی اگر بلاوجہ ادھر ادھر نظر کرتا ہے تو اس کا یہ فعل ایک شیطانی حرکت ہے، یعنی شیطان اس طرح سے اس کی نماز کو ناقص بنا کر اس کے اجرو ثواب کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب بندہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی اس پر نظر رحمت رہتی ہے، بشرطیکہ وہ ادھر ادھر نہ جھانکے۔ جب وہ اپنے چہرے کو دوسری طرف کرتا ہے تو اللہ کی رحمت بھی اس سے دور ہوجاتی ہے۔ (جامع الترمذي، الأمثال، حدیث:2863) ایک روایت میں ہے کہ جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر مت دیکھا کرو۔ حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دوران نماز میں ادھر ادھر دیکھ لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ یہ آیات نازل ہوئیں:﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ - الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ (فتح الباري:303/2) ’’ تحقیق وہی اہل ایمان فلاح یافتہ ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع کو برقرار رکھتے ہیں۔‘‘ (المومنون1:23) اس کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی نمازوں میں صرف اپنے آگے دیکھتے اور ان پر خوب توجہ دیتے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کی نگاہیں سجدہ گاہ سے تجاوز نہ کریں۔ ان احادیث وآثار کی وجہ سے ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور دوران نماز میں ادھر ادھر جھانک کر اپنی نمازوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔