تشریح:
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے براہ راست ہم کلام ہوگا۔ ان کے درمیان کوئی واسطہ یا ترجمان نہیں ہو گا۔ توحید باری تعالیٰ کے بعد قیامت کے دن جو اعمال کام آئیں گے ان میں سے کسی غریب، مسکین اور حاجت مند کی فی سبیل اللہ مدد کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ مدد خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو اگر اس میں خلوص ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا دے گا۔ اگر اتنی بھی ہمت نہیں تو دوسروں کو بھلی بات کہنا بھی بہت وزن رکھتی ہے۔ زبان سے دوسروں کی خیرخواہی کرنے کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا جائے تو یہ عمل بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت کار آمد اور ثمر آور ہے۔