تشریح:
1۔اس حدیث میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ساتویں آسمان میں تھے اور انھیں یہ فضیلت اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی کی وجہ سے ملی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طویل حدیث کے مذکورہ ٹکڑے سے عنوان ثابت کیا ہے دراصل اس فضیلت کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا۔ ’’اے میرے رب! مجھے گمان نہ تھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ بلندی پر پہنچے گا۔‘‘ قرآن مجید کی صراحت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ رب العزت جب ہم کلام ہوا تو انھوں نے مطالبہ کیا۔ ’’میرے رب! مجھے اپنا آپ دکھلا دیجیے کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکے گا البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا توتو بھی مجھے دیکھ سکے گا۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔ پھر جب انھیں کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگے۔ تیری ذات پاک ہے۔ میں تیرےحضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (الاعراف 7/143)پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے موسیٰ علیہ السلام! میں نے تجھے اپنی رسالت اور ہم کلامی کے لیے تمام لوگوں پر چن لیا ہے۔‘‘ (الأعراف:144) یعنی اگر دیددار نہیں ہو سکا تو اور تھوڑی نعمتیں اور فضیلتیں تمھیں عطا کی ہیں اپنا رسول بنایا براہ راست ہم کلامی کا شرف بخشا اور تمام جہانوں میں سے تمھیں منتخب کیا لہٰذا میری طرف سے آنے والے شرعی احکام پر اچھی طرح عمل کرو اور مذکورہ نعمتوں پر میرا شکر ادا کرتے رہو۔
2۔بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ماضی حال اور مستقبل بلکہ ہر آن صفت کلام سے متصف ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہےجس سے چاہے جیسے چاہے ہم کلام ہونے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حقیقی کلام کیا جو آواز و حروف پر مشتمل تھا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام زمین پر تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں پر تھے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کلام کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے عرض کی: میں حاضر ہوں اس حاضری میں میری سعادت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میرے ہاں وہ قول بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔‘‘ مزید فرمایا: ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے لہٰذا یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں مگر تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔‘‘ حدیث کے اس حصے میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ گفتگو فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یا محمد کہہ کر خطاب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز آسمانوں پر ملا ہے۔
3۔ حضرت شریک سے مروی اس حدیث پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں ان کے جوابات طوالت کا باعث ہیں استاذ محترم شیخ ڈاکٹر عبداللہ بن محمد الغنیمان نے انھیں کتاب التوحید کی شرح میں نقل کیا ہے۔ اس کا مطالعہ مفیدرہے گا۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 443/1، 464)