قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل للنبیﷺ

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِهِ: {وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا} [النساء: 164])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7517. حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ فَقَالَ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ فَغَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ حَتَّى أَنْقَى جَوْفَهُ ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِكْمَةً فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَضَرَبَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِهَا فَنَادَاهُ أَهْلُ السَّمَاءِ مَنْ هَذَا فَقَالَ جِبْرِيلُ قَالُوا وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مَعِيَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ قَالَ نَعَمْ قَالُوا فَمَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا فَيَسْتَبْشِرُ بِهِ أَهْلُ السَّمَاءِ لَا يَعْلَمُ أَهْلُ السَّمَاءِ بِمَا يُرِيدُ اللَّهُ بِهِ فِي الْأَرْضِ حَتَّى يُعْلِمَهُمْ فَوَجَدَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا آدَمَ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَرَدَّ عَلَيْهِ آدَمُ وَقَالَ مَرْحَبًا وَأَهْلًا بِابْنِي نِعْمَ الِابْنُ أَنْتَ فَإِذَا هُوَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِنَهَرَيْنِ يَطَّرِدَانِ فَقَالَ مَا هَذَانِ النَّهَرَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا النِّيلُ وَالْفُرَاتُ عُنْصُرُهُمَا ثُمَّ مَضَى بِهِ فِي السَّمَاءِ فَإِذَا هُوَ بِنَهَرٍ آخَرَ عَلَيْهِ قَصْرٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ فَضَرَبَ يَدَهُ فَإِذَا هُوَ مِسْكٌ أَذْفَرُ قَالَ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي خَبَأَ لَكَ رَبُّكَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَقَالَتْ الْمَلَائِكَةُ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَتْ لَهُ الْأُولَى مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قَالُوا وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالُوا مَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ وَقَالُوا لَهُ مِثْلَ مَا قَالَتْ الْأُولَى وَالثَّانِيَةُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى الرَّابِعَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ فَقَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ كُلُّ سَمَاءٍ فِيهَا أَنْبِيَاءُ قَدْ سَمَّاهُمْ فَأَوْعَيْتُ مِنْهُمْ إِدْرِيسَ فِي الثَّانِيَةِ وَهَارُونَ فِي الرَّابِعَةِ وَآخَرَ فِي الْخَامِسَةِ لَمْ أَحْفَظْ اسْمَهُ وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ وَمُوسَى فِي السَّابِعَةِ بِتَفْضِيلِ كَلَامِ اللَّهِ فَقَالَ مُوسَى رَبِّ لَمْ أَظُنَّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَيَّ أَحَدٌ ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ فَتَدَلَّى حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثُمَّ هَبَطَ حَتَّى بَلَغَ مُوسَى فَاحْتَبَسَهُ مُوسَى فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ مَاذَا عَهِدَ إِلَيْكَ رَبُّكَ قَالَ عَهِدَ إِلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ وَعَنْهُمْ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ كَأَنَّهُ يَسْتَشِيرُهُ فِي ذَلِكَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ أَنْ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَعَلَا بِهِ إِلَى الْجَبَّارِ فَقَالَ وَهُوَ مَكَانَهُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَنَّا فَإِنَّ أُمَّتِي لَا تَسْتَطِيعُ هَذَا فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرَ صَلَوَاتٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُوسَى فَاحْتَبَسَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ حَتَّى صَارَتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوسَى عِنْدَ الْخَمْسِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَوْمِي عَلَى أَدْنَى مِنْ هَذَا فَضَعُفُوا فَتَرَكُوهُ فَأُمَّتُكَ أَضْعَفُ أَجْسَادًا وَقُلُوبًا وَأَبْدَانًا وَأَبْصَارًا وَأَسْمَاعًا فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ كُلَّ ذَلِكَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ لِيُشِيرَ عَلَيْهِ وَلَا يَكْرَهُ ذَلِكَ جِبْرِيلُ فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ فَقَالَ يَا رَبِّ إِنَّ أُمَّتِي ضُعَفَاءُ أَجْسَادُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ وَأَسْمَاعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ فَخَفِّفْ عَنَّا فَقَالَ الْجَبَّارُ يَا مُحَمَّدُ قَالَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ قَالَ إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ كَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْكَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ قَالَ فَكُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُونَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْكَ فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى فَقَالَ كَيْفَ فَعَلْتَ فَقَالَ خَفَّفَ عَنَّا أَعْطَانَا بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا قَالَ مُوسَى قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ فَتَرَكُوهُ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ أَيْضًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مُوسَى قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ قَالَ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ قَالَ وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ

مترجم:

7517.

سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ ﷺ کو مسجد کعبہ سے اسراء کے لیے لے جایا گیا تھا۔ وحی آنے سے پہلے آپ ﷺ کے پاس تین فرشتے آئے جبکہ آپ مسجد حرام میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا: ان میں جو سب سے بہتر ہیں۔ تیسرے نے کہا: ان میں جو بہتر ہے اسے لے لو۔ اس رات تو اتنا ہی واقعہ پیش آیا۔ آپﷺ نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا حتیٰ کہ وہ دوسری رات آئے جبکہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ حضرات انبیاء ؑ کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل بیدار رہتے ہیں چنانچہ انہوں نے آپ ﷺ سے کوئی بات نہ کی بلکہ آپ کو اٹھا کر چاہ زمزم کے پاس لے آئے۔ پھر جبرئیل ؑ نے آپ سے متعلقہ کام لیا، اس نے آپ کے گلے سے لے کر دل سے نیچے تک چاک کیا، پھر اسے زمزم کے ساتھ اپنے ہاتھ سے دھویا حتیٰ کہ آپ کا سینہ اور پیٹ خوب صاف کر دیا، چنانچہ آپ کا اندر پاک ہوگیا۔ پھر آپ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں ایمان وحکمت سے بھرا ہوا سونے کا یک برتن تھا۔ اس سے آپ کا سینہ مبارک اور حلق کی رگیں بھر دیں، پھر اسے برابر کر دیا۔ اس کے بعد وہ (فرشتے) آپ کو لے کر آسمان دنیا پر چڑھے اور اسکے دروازے پر دستک دی۔ آسمان والوں نے ان سے پوچھا: کون ہیں؟ جواب دیا: جبیل ہوں۔ انہوں نے پوچھا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ جواب دیا: میرے ساتھ سیدنا محمد ﷺ ہیں۔ انہوں نے پوچھا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں۔ آسمان والوں نے انہیں خوش آمدید کہا کہ تم اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔آسمان والے اس سے بہت خوش ہوئے ان میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک وہ انہیں بتا نہیں دیتا۔ آپﷺ نے آسمان دنیا پر سیدنا آدم ؑ کو پایا تو سیدنا جبرئیل ؑ نے آپ سے کہا: یہ آپ کے والد محترم آدم ہیں، انہیں سلام کریں۔آپ نے انہیں سلام کیا تو سیدنا آدم ؑ نے آپ کے سلام کیا تو سیدنا آدم ؑ نے آپ کے سلام کا جواب دیا اور کہا: میرے پیارے بیٹے! آپ کا آنا مبارک ہو۔ آپ کیا ہی اچھے بیٹے ہیں۔ پھر آپ نے اچانک آسمان دنیا پر دو نہریں دیکھیں جو جاری تھیں۔آپ نے پوچھا: ”اے جبریل! یہ نہریں کیسی ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا: یہ نیل اور فرات کا اصل منبع ہیں۔ پھر آپ آسمان پر مزید سیر کرنے لگے تو ایک اور نہر دیکھی جس کے اوپر موتیوں اور زبرجد سے تیار شدہ ایک محل ہے۔ اس پر آپ نے ہاتھ مارا تو پتا چلا کہ وہ مشک ہے۔ پوچھا: ”اے جبریل یہ کیا ہے؟“ جواب دیا : یہ کوثر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے محفوظ کر رکھا ہے۔ پھر آپ دوسرے آسمان پر چڑھے رو فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے پر کیا تھا، یعنی کون ہیں؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ انہوں نے پوچھا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: سیدنا محمدﷺ! پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا: ہاں۔ فرشتے بولے انہیں خوش آمدید اور بشارت ہو، پھر وہ آپ کو لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے۔ یہاں کے فرشتوں نے بھی وہی سوال کیا جو پہلے اور دوسرے آسمان والوں نے کیا تھا۔ پھر چوتھے آسمان پر لے گئے اور یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ پھر پانچویں آسمان پر آپ کو لے چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ پھر چھٹے آسمان پر آپ کو لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے تو یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ ہر آسمان پر انبیاء ؑ ہیں۔ راوی کہتا ہے: ان کے نام آپ نے لیے مجھے اتنا یاد ہے کہ سیدنا ادریس ؑ دوسرے آسمان پر۔ سیدنا ہارون ؑ، چوتھے آسمان پر، پانچویں آسمان پر بھی کسی نبی کا نام لیا لیکن مجھے اب یاد نہیں۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم ؑ چھٹے آسمان پر اور سیدنا موسیٰ ؑ ساتویں آسمان پر۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی کی وجہ سے یہ فضیلت ملی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: اے میرے رب! مجھے گمان نہ تھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ بلندی پر پہنچے گا۔ پھر (جبریل ؑ) آپ کو لے اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں یہاں تک آپ سدرۃ المنتہیٰ پر آئے اور اللہ رب العزت کے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسا کہ کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی زیادہ قریب۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی بھیجی اس میں آپ کی امت پر دن رات میں پچاس نمازیں (فرض) تھیں پھر آپ ﷺ نیچے تشریف لائے۔ جب سیدنا موسیٰ ؑ کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور پوچھا: اے محمد! تمہارے رب نے تم سے کیا عہد لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میرے رب نے مجھ سے دن رات میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا عہد لیا ہے۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: یقیناً آپ کی امت میں انہیں ادا کرنے کی ہمت نہیں واپس جائیں اپنی اور اپنی امت کی طرف سے کمی کی درخواست کریں۔“ تب نبی ﷺ سیدنا جبیل کی طرف مشورہ لینے کے لیے متوجہ ہوئے تو انہوں نے اشارہ کیا کہ اگر آپ چاہیں تو بہتر ہے۔ پھر آپ انہیں لے کر اللہ جبار کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے مقام پر کھڑے ہوکر عرض کی: اے میرے رب! ہم سے تخفیف کر دے کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دس نمازوں کی کمی کر دی۔ پھر آپ سیدنا موسیٰ ؑ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو روکا۔ سیدنا موسیٰ ؑ کو روکا اور کہا: اے محمد! میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کا اس سے کم نماز ادا کرنے کا تجزیہ کیا ہے، وہ انتہائی ناتواں ثابت ہوئے اور انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ کی امت تو جسم، دل، بدن، نظر اور سماعت کے اعتبار سے بہت کمزور ہے۔ آپ واپس تشریف لے جائیں اور اپنے رب سے مزید تخفیف کی درخواست کریں۔ نبی ﷺ ہر مرتبہ سیدنا جبریل کی طرف متوجہ ہوئے رہے تاکہ وہ آپ کو اس کے متعلق مشورہ دیں۔ سیدنا جبریل ؑ بھی اسے ناپسند نہیں کرتے تھے۔ آخر کار وہ پانچویں بار آپ کو اوپر لے گئے تو آپ نے عرض کی: ”اے میرے رب! میری امت جسم، دل، کان ہر حیثیت سے کمزور ہے۔ لہذا ہم سے مزید تخفیف فرما۔“ اللہ جبار نے فرمایا: اے محمد! آپ نے کہا: ”میں حاضر ہوں، اس حاضری میں میری سعادت ہے“ فرمایا: میرے ہاں وہ قول بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔ مزید فرمایا: ”ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ہے لہذا یہ ام الکتاب میں پچاس ہیں مگر تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔ پھر جب آپ سیدنا موسیٰ ؑ کے پاس واپس آئے تو انہوں نے پوچھا: اب کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: اب اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ تخفیف کر دی ہے کہ ہر نیکی کے بدلے دس گناہ ثواب ملے گا۔“ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے بنی اسرائیل کا اس سے کم نمازوں کا تجربہ کیا ہے، انہوں نے اسے بھی چھوڑ دیا تھا۔ آپ اپنے رب کی طرف واپس جائیں اور ان میں مزید کمی کی درخواست کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے موسیٰ! اللہ کی قسم! اب مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے کہ بار بار ایک کام کے لیے اس کی طرف جاؤں۔ انہوں نے کہا: پھر اللہ کا نام لے کر(زمین پر) اتر جائیں۔ راوی کہتا ہے: اس کے بعد آپ ﷺ بیدار ہو گئے جبکہ آپ مسجد حرام ہی میں تھے۔