تشریح:
1۔اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسموں پر مشتمل ہیں۔ © ذاتیہ۔ ©فعلیہ۔ صفات ذاتیہ وہ صفات ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا۔ جیسے العلم ، القدرۃ ، السمع اور البصر وغیرہ۔ صفات فعلیہ: وہ صفات ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چاہت سے ہے وہ چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے مثلاً رزق دینا اور آسمان دنیا پر نزول فرمانا وغیرہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کے دو پہلو ہیں۔ اصل کے اعتبار صفت ذاتیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے اور ہمیشہ متکلم رہے گا لیکن کلام کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے یہ صفت فعلیہ ہے کیونکہ اس کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے۔
2۔معتزلہ نے صفات فعلیہ کا اس لیے انکار کیا ہے کہ مخلوق کی بنا پر وہ حادث ہیں اور اللہ تعالیٰ حوادث کا محل نہیں ہو سکتا۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ قرآن (مُحدَث) ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے (مُحدَث) کہا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی موقف کی تردید کی ہے کیونکہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تازہ تازہ نازل ہونے کے اعتبار سے محدث کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا ہے۔ ’’وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے۔‘‘ ہر روز ایک نئی شان میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ کوئی اس سے کھانے کو مانگ رہا ہے کوئی پینے کو۔ کوئی تندرستی کے لیے دعا کر رہا ہے تو کوئی اولاد کے لیے۔ کوئی گناہوں سے بخشش کی دعا کر رہا ہے تو کوئی اور درجات کی بلندی کے لیے دعا مانگ رہا ہے اور وہ سب مخلوق کی سنتا اور ان کی فریاد رسی کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن یہ کام کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں وہ ہر وقت نئی مخلوق وجود میں لا رہا ہے جس طرح انسانوں کی پیدائش بڑھ رہی ہے اسی طرح ہر ذی حیات کی نسل میں اضافہ ہو رہا ہے الغرض ہر روز اس کی ایک نئی آن اور نئی شان ہوتی ہے۔
3۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صفات فعلیہ سے بھی متصف ہے جیسے کلام کرنا، زندہ کرنا، مارنا، پیدا کرنا اور اترنا وغیرہ اس قسم کے افعال و انتظامات ہر ساعت نئے نئے نمودار ہوتے رہتے ہیں جن لوگوں نے صفات فعلیہ کا اس بنا پر انکار کیا ہے کہ وہ حادث ہیں اور حوادث ذات باری تعالیٰ کے شایان شان نہیں۔ بلا شبہ وہ علم سے کورے اور عقل سے فارغ ہیں۔ واللہ أعلم۔