صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
28. باب: اللہ کا فرمان ( سورۃ والصافات میں ) کہ’’ ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا‘‘
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
28. بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا المُرْسَلِينَ} [الصافات: 171]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
28. Chapter: “And, verily, Our Word has gone forth of old for Our slaves – the Messengers”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ کا فرمان ( سورۃ والصافات میں ) کہ’’ ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And, verily, Our Word has gone forth of old for Our slaves – the Messengers”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7523.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”اے جبر ئیل! آپ کو ہمارے پاس اس سے زیادہ مرتبہ آنے میں کیا رکاوٹ ہے جتنا آپ سے پہلے آتے رہتے ہیں؟“ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کا ہے وہ سب کچھ جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے۔۔۔۔۔۔ آیت کریمہ میں مذکورہ جواب سیدنا محمد ﷺ کے لیے نازل ہوا۔
تشریح:
1۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات و ظروف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام کی شدید ضرورت تھی۔ جب حضرت جبریل علیہ السلام کافی دیر بعد متعلقہ ہدایات لے کر آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا: تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے؟ تو اس وقت انھوں نے وضاحت فرمائی کہ ہم کوئی باختیار مخلوق نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بندے ہیں جب ہمیں حکم ملتا ہے حاضر ہو جاتے ہیں اس دیر میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحتیں ہوتی ہیں۔ 2۔حدیث میں رب کے حکم سے مراد اس کا اذن ہے جسے کلام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کلام باعتبار اصل صفت ذاتیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے اور ہمیشہ متکلم رہے گا۔ لیکن باعتبار متعلق صفت فعلیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے جب چاہے جو چاہے کلامکرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتاہے تو اتنا ہی کہتا ہے کہ "ہو جا"تو وہ (اسی وقت)ہو جاتی ہے۔‘‘ (یٰس36۔82) اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے البتہ تعلق کے اعتبار سے حادث ہے کیونکہ فرشتوں کو وقتاً فوقتاً ارشادات و احکام صادر ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام امین کو زمین پر اترنے کا حکم دیتا ہے تو وہ تووہ اتر پڑتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اترنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیرو برکت کا پیش خیمہ ہوتا ہے یہی وہ فیصلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء اور اہل ایمان کے لیے پہلے سے کیا ہوا ہے واللہ أعلم۔
مضمون سے متعلقہ آیات حسب ذیل ہیں۔"اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی ہماری بات صادر ہو چکی ہے کہ بے شک وہ یقیناًان کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر یقیناً وہی غالب رہے گا۔"(الصافات:37۔171۔173)اس غلبے سے مراد صرف سیاسی غلبہ ہی نہیں بلکہ اس سے مراد اخلاقی اقدار اور دین کی اصولی باتوں کا غلبہ ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے حق کی مخالفت کی وہ بالآخر تباہ ہو گئیں مگر جن حقائق کو ہزار ہا برس سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہ السلام پیش کرتے رہے وہ پہلے بھی اٹل تھے اور آج بھی اٹل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کلام قدیم ہو گی البتہ مخلوق سے اس کا تعلق حادث ہو گا۔چنانچہ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور کلام زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے کے ہیں جیسا کہ آئندہ احادیث سے اس امر کی مزید وضاحت ہوگی دراصل محدثین کی تائید میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف ہے کہ قرآن غیر مخلوق ہے یہ اور آئندہ ابواب بطور تمہید کے قائم کیے ہیں۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”اے جبر ئیل! آپ کو ہمارے پاس اس سے زیادہ مرتبہ آنے میں کیا رکاوٹ ہے جتنا آپ سے پہلے آتے رہتے ہیں؟“ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کا ہے وہ سب کچھ جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے۔۔۔۔۔۔ آیت کریمہ میں مذکورہ جواب سیدنا محمد ﷺ کے لیے نازل ہوا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات و ظروف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام کی شدید ضرورت تھی۔ جب حضرت جبریل علیہ السلام کافی دیر بعد متعلقہ ہدایات لے کر آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا: تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے؟ تو اس وقت انھوں نے وضاحت فرمائی کہ ہم کوئی باختیار مخلوق نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بندے ہیں جب ہمیں حکم ملتا ہے حاضر ہو جاتے ہیں اس دیر میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحتیں ہوتی ہیں۔ 2۔حدیث میں رب کے حکم سے مراد اس کا اذن ہے جسے کلام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کلام باعتبار اصل صفت ذاتیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے اور ہمیشہ متکلم رہے گا۔ لیکن باعتبار متعلق صفت فعلیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے جب چاہے جو چاہے کلامکرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتاہے تو اتنا ہی کہتا ہے کہ "ہو جا"تو وہ (اسی وقت)ہو جاتی ہے۔‘‘ (یٰس36۔82) اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے البتہ تعلق کے اعتبار سے حادث ہے کیونکہ فرشتوں کو وقتاً فوقتاً ارشادات و احکام صادر ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام امین کو زمین پر اترنے کا حکم دیتا ہے تو وہ تووہ اتر پڑتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اترنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیرو برکت کا پیش خیمہ ہوتا ہے یہی وہ فیصلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء اور اہل ایمان کے لیے پہلے سے کیا ہوا ہے واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن زر نے بیان کیا، کہا ہم نے اپنے والد ذر بن عبداللہ سے سنا، وہ سعید بن جبیر سے بیان کرتے تھے اور وہ ابن عباس ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے جبرائیل! آپ کو ہمارے پاس اس سے زیادہ آنے میں کیا رکاوٹ ہے جتنا آپ آتے رہتے ہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا)اور ہم نازل نہیں ہوتے لیکن آپ کے رب کے حکم سے، اسی کا ہے وہ سب کچھ جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے الآیہ۔ بیان کیا کہ محمد ﷺ کو یہی جواب آیت میں اترا۔
حدیث حاشیہ:
اس آیت اور حدیث سےحضرت اما م بخاری نے یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور حکم حادث ہوتا ہے کیونکہ فرشتوں کو وقتاً فوقتاً ارشادات اور احکام صادر ہوتے رہتے ہیں رد ہوا ان لوگوں کا جو اللہ کا کلام قدیم اور ازلی جانتے ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ اللہ کا کلام مخلوق نہیں ہے بلکہ اس کی ذات کی طرح غیر مخلوق ہے۔ باقی اس میں آواز ہے، حروف ہیں جس لغت میں منظور ہوتا ہے اللہ اس میں کلام کرتا ہے۔ اہلحدیث کا یہی اعتقاد ہے اور جن متکمین نے اس کے خلاف اعتقاد قائم کئے ہیں وہ خو د بھی بہک گئے۔ دوسروں کو بھی بہکا گئے۔ ضلوا فأضلوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "O Gabriel (ؑ), what prevents you. from visiting us more often than you do?" Then this Verse was revealed:--'And we angels descend not but by Command of your Lord. To Him belongs what is before us and what is behind us..' (19.64) So this was the answer to Muhammad.