تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبرانی زبان نہیں جانتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تورات لانے کا حکم دیا اور وہ عبرانی زبان میں تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کلام اللہ کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت دی۔ اب دواحتمال ہیں: ایک یہ کہ تورات پڑھنے والا عبرانی زبان میں پڑھتا، پھر اس کا عربی زبان میں ترجمہ کرتا، اس صورت میں آیت رجم پر ہاتھ رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے جو عبرانی زبان جانتے تھے انھیں اس امر کا پتا نہ چل سکے کہ تورات میں رجم کرنے کا حکم موجود ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ وہ اسے عربی زبان میں پڑھتا۔ اس صورت میں آیت رجم پر اس لیے ہاتھ رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حکم کو چھپایا جائے۔ بالآخر یہ چوری پکڑی گئی اور بدکاری کے مرتکب مرد، عورت دونوں کو رجم کردیا گیا۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ترجمہ اور اصل میں فرق واضح ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ترجمہ انسانی کوشش وکاوش اور بندے کا فعل ہے۔ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں جبکہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں۔