کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: مشیت اور ارادہ خداوندی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: (Allah’s) Wish and Will)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے(سورۃ انفطرت میں)فرمایا”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“اور(سورۃ آل عمران میں)فرمایا کہ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“اور(سورۃ الکہف میں)فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“اور(سورۃ قصص میں)فرمایا کہ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور(سورۃ البقرہ میں)فرمایا کہ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
7543.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں ایک وقت سو رہا تھا کہ خود کو ایک کنویں پرد یکھا۔ میں نے اس سے، جتنا اللہ نے چاہا، پانی نکالا۔ اس کے بعد ابن قحافہ نے ڈول پکڑ لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے البتہ ان کے ڈول کھنچنے میں کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ پھر اسے عمر نے لے لیا تو وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے لوگوں میں سے کوئی باکمال و بے مثال نہیں دیکھا اس طرح ڈول پر ڈول نکالتا ہو یہاں تک کہ لوگوں نے اس کنویں کے ارد گرد گھاٹ بنالیے۔“
تشریح:
1۔ابن ابی قحافہ سے مراد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انھوں نے دو ڈول نکالے۔ ڈول نکالنے کی تعبیر امور خلافت انجام دینے سے ہے۔ حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کمزوری سے مراد مال غنیمت کی کمی ہے کیونکہ ان کے دور میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ آپ انھیں دین اسلام کی طرف واپس لانے کے لیے ان کی سرکوبی میں لگے رہے۔ یہ عمل فتوحات اور ان کے نتیجے میں مال غنیمت سے کہیں بڑھ کر درجہ رکھتا ہے۔ چونکہ ارتداد کا عمل ان کے دور حکومت میں ہوا تھا، اس لے مذکورہ کمزوری کو ان کی طرف منسوب کیا گیا، پھر اسے معاف کر دیا گیا کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اسلام کی طرف واپس لانے میں پوری توانائیاں صرف کر دیں۔ 2۔ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر طاقت اور مہارت سے ڈول کھینچے یہ بھی ان کے کامیاب دورحکومت کی طرف اشارہ ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پانی کھینچا اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے منسلک کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں۔ انسان کی اپنی چاہت بھی ہوتی ہے لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘(الدھر 30) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنی چاہت ہی سب کچھ نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی چاہت شامل حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی چاہت اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اس کی حکمت اور وسیع علم ہے۔
اور اللہ نے (سورۃ انفطرت میں) فرمایا ”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“ اور (سورۃ آل عمران میں) فرمایا کہ ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“ اور (سورۃ الکہف میں) فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“ اور (سورۃ قصص میں) فرمایا کہ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“ سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور (سورۃ البقرہ میں) فرمایا کہ ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں ایک وقت سو رہا تھا کہ خود کو ایک کنویں پرد یکھا۔ میں نے اس سے، جتنا اللہ نے چاہا، پانی نکالا۔ اس کے بعد ابن قحافہ نے ڈول پکڑ لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے البتہ ان کے ڈول کھنچنے میں کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ پھر اسے عمر نے لے لیا تو وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے لوگوں میں سے کوئی باکمال و بے مثال نہیں دیکھا اس طرح ڈول پر ڈول نکالتا ہو یہاں تک کہ لوگوں نے اس کنویں کے ارد گرد گھاٹ بنالیے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ابن ابی قحافہ سے مراد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انھوں نے دو ڈول نکالے۔ ڈول نکالنے کی تعبیر امور خلافت انجام دینے سے ہے۔ حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کمزوری سے مراد مال غنیمت کی کمی ہے کیونکہ ان کے دور میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ آپ انھیں دین اسلام کی طرف واپس لانے کے لیے ان کی سرکوبی میں لگے رہے۔ یہ عمل فتوحات اور ان کے نتیجے میں مال غنیمت سے کہیں بڑھ کر درجہ رکھتا ہے۔ چونکہ ارتداد کا عمل ان کے دور حکومت میں ہوا تھا، اس لے مذکورہ کمزوری کو ان کی طرف منسوب کیا گیا، پھر اسے معاف کر دیا گیا کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اسلام کی طرف واپس لانے میں پوری توانائیاں صرف کر دیں۔ 2۔ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر طاقت اور مہارت سے ڈول کھینچے یہ بھی ان کے کامیاب دورحکومت کی طرف اشارہ ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پانی کھینچا اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے منسلک کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں۔ انسان کی اپنی چاہت بھی ہوتی ہے لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘(الدھر 30) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنی چاہت ہی سب کچھ نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی چاہت شامل حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی چاہت اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اس کی حکمت اور وسیع علم ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے۔“ ”اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے۔“ ”کسی چیز کے متعلق کبھی یہ نہ کہنا کہ میں کل یہ ضرور کروں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے۔“ ”(اے نبی!) بے شک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہیں بلکہ اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل اللحمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک کنویں پر دیکھا۔ پھر میں نے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا اس میں سے پانی نکالا۔ اس کے بعد ابوبکر بن ابی قحافہ ؓ نے ڈول لے لیا اور انہوں نے بھی ایک دو ڈول پانی نکالا البتہ ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اور اللہ انہیں معاف کرے۔ پھر عمر ؓ نے اسے لے لیا اور وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے کسی قوی و بہادر کو اس طرح ڈول پر ڈول نکالتے نہیں دیکھا، یہاں تک کہ لوگوں نے ان کے چاروں طرف مویشیوں کے لیے باڑیں بنا لیں۔
حدیث حاشیہ:
رسول کریم ﷺ نےقدم قدم پرلفظ ان شاء اللہ کا استعمال فرما کر مشیت باری تعالیٰ پر ہر کام کو موقوف رکھا۔ ڈول کھینچنے کی تعبیر امور خلافت کو انجام دینے سے ہے۔ عہدصدیقی بھی کامیاب رہا مگر عہد فاروقی میں اسلام کوجو وسعت ہوئی اور امر خلافت مستحکم ہوا اور ظاہر ہے۔ اسی پراشاد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "While I was sleeping, I saw myself (in a dream) standing by a well. I drew from it as much water as Allah wished me to draw, and then Ibn Quhafa (Abu Bakr) took the bucket from me and drew one or two buckets, and there was weakness in his drawing----may Allah forgive him! Then 'Umar took the bucket which turned into something like a big drum. I had never seen a powerful man among the people working as perfectly and vigorously as he did. (He drew so much water that) the people drank to their satisfaction and watered their camels that knelt down there. (See Hadith No. 16, Vol. 5)