باب: اس بارے میں کہ تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: What to say after the Takbir)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
755.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ اور قراءت کے درمیان کچھ سکوت فرماتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ تکبیر اور قراءت کے درمیان سکوت میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میں کہتا ہوں: یا اللہ! مجھ سے میرے گناہ اتنے دور کر دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ رکھا ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہ پانی، برد اور اولوں سے دھو دے۔‘‘
تشریح:
(1) اسے دعائے استفتاح کہا جاتا ہے ۔ امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ تکبیر تحریمہ اور فاتحہ کے درمیان کچھ پڑا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ دیگر ادعیۂ افتتاح بھی احادیث میں وارد ہیں مگر مذکورہ دعا صحیح ترین ہے اور اسے آہستہ پڑھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے جو مختصر، آسان اور جامع ہے:(سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعاليٰ جدك ولا إله غيرك)(سنن أبي داود ،الصلاة، حدیث:776) سنن بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ افتتاح کے طور پر مختلف دعاؤں کو جمع بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن سند کے لحاظ سے یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ امام بیہقی نے خود وضاحت کردی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي، باب من روی الجمع بینھما:2/35) (2) دعائے استفتاح کے بعد چونکہ قراءت شروع کرنی ہے، اس لیے قرآن کریم کے حکم کے پیش نظر تعوذ پڑھنا بھی سنت ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دعائے استفتاح کے بعد مندرجہ ذیل تعوذ پڑھتے: (أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه و نفخه و نفثه)(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:775) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘(النحل98:16) اس آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے متقدمین نے ہر رکعت کے شروع میں تعوذ کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جبکہ راجح بات یہ ہے کہ تعوذ صرف پہلی رکعت ہی میں پڑھا جائے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے: رسول اللہ ﷺ جب دوسری رکعت کے لیے اٹھتے تھے تو ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کے ساتھ قراءت شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساجدومواضع الصلاة، حدیث:1356(599))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
736
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
744
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
744
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
744
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ اور قراءت کے درمیان کچھ سکوت فرماتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ تکبیر اور قراءت کے درمیان سکوت میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میں کہتا ہوں: یا اللہ! مجھ سے میرے گناہ اتنے دور کر دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ رکھا ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہ پانی، برد اور اولوں سے دھو دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اسے دعائے استفتاح کہا جاتا ہے ۔ امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ تکبیر تحریمہ اور فاتحہ کے درمیان کچھ پڑا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ دیگر ادعیۂ افتتاح بھی احادیث میں وارد ہیں مگر مذکورہ دعا صحیح ترین ہے اور اسے آہستہ پڑھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے جو مختصر، آسان اور جامع ہے:(سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعاليٰ جدك ولا إله غيرك)(سنن أبي داود ،الصلاة، حدیث:776) سنن بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ افتتاح کے طور پر مختلف دعاؤں کو جمع بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن سند کے لحاظ سے یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ امام بیہقی نے خود وضاحت کردی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي، باب من روی الجمع بینھما:2/35) (2) دعائے استفتاح کے بعد چونکہ قراءت شروع کرنی ہے، اس لیے قرآن کریم کے حکم کے پیش نظر تعوذ پڑھنا بھی سنت ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دعائے استفتاح کے بعد مندرجہ ذیل تعوذ پڑھتے: (أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه و نفخه و نفثه)(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:775) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘(النحل98:16) اس آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے متقدمین نے ہر رکعت کے شروع میں تعوذ کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جبکہ راجح بات یہ ہے کہ تعوذ صرف پہلی رکعت ہی میں پڑھا جائے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے: رسول اللہ ﷺ جب دوسری رکعت کے لیے اٹھتے تھے تو ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کے ساتھ قراءت شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساجدومواضع الصلاة، حدیث:1356(599))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ اور قرات کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ ؓ نے یوں کہا یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرات کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں اللهم باعد بيني وبين خطاياي، كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد (ترجمہ) اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال۔
حدیث حاشیہ:
دعائے استفتاح کئی طرح پرواردہے مگر سب میں صحیح دعا یہی ہے اور سبحانک اللهم جسے عموماً پڑھا جاتا ہے وہ بھی حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔ مگراس روایت کی سند میں ضعف ہے، بہرحال اسے بھی پڑھا جاسکتاہے۔ مگرترجیح اسی کو حاصل ہے، اور اہل حدیث کا یہی معمول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to keep silent between the Takbir and the recitation of Qur'an and that interval of silence used to be a short one. I said to the Prophet (ﷺ) "May my parents be sacrificed for you! What do you say in the pause between Takbir and recitation?" The Prophet (ﷺ) said, "I say, 'Allahumma, ba'id baini wa baina khatayaya kama ba'adta baina-l-mashriqi wa-l-maghrib. Allahumma, naqqim min khatayaya kama yunaqqa-ththawbu-l-abyadu mina-ddanas. Allahumma, ighsil khatayaya bil-ma'i wa-th-thalji wal-barad (O Allah! Set me apart from my sins (faults) as the East and West are set apart from each other and clean me from sins as a white garment is cleaned of dirt (after thorough washing). O Allah! Wash off my sins with water, snow and hail.)"