قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

755.  حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا، فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لاَ يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ إِنَّ هَؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ «فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أُصَلِّي صَلاَةَ العِشَاءِ، فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الأُخْرَيَيْنِ»، قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الكُوفَةِ، فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ: أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي القَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ: شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ، أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ المَلِكِ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ

مترجم:

755.

حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر ؓ سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ  کی شکایت کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد ؓ  کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد ؓ  کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ اہل کوفہ سے حضرت سعد ؓ سے متعلق شکایات کی تحقیق کریں) انہوں نے وہاں جا کر کوئی مسجد نہ چھوڑی جہاں حضرت سعد ؓ کا حال نہ پوچھا ہو۔ سب لوگوں نے ان کی تعریف کی۔ پھر وہ قبیلہ عبس کی مسجد میں گئے تو وہاں ایک شخص کھڑا ہوا جس کی کنیت ابوسعدہ تھی اور اسے اسامہ بن قتادہ کہا جاتا تھا، وہ بولا: جب تم نے ہمیں قسم دلائی ہے تو سنیں! سعد (ؓ) جہاد میں لشکر کے ساتھ خود نہ جاتے تھے اور نہ ہی مال غنیمت میں برابر تقسیم کرتے تھے، نیز مقدمات میں انصاف سے کام نہ لیتے تھے۔ حضرت سعد ؓ نے یہ سن کر کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے تین بد دعائیں دیتا ہوں: اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف لوگوں کو دکھانے یا سنانے کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر دے، اس کی فقیری بڑھا دے اور آفتوں میں پھنسا دے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا) اس کے بعد جب اس سے اس کا حال دریافت کیا جاتا تو کہتا کہ میں ایک آفت رسیدہ، دراز عمر بوڑھا ہوں۔ مجھے حضرت سعد ؓ کی بددعا لگ گئی ہے۔ عبدالملک راوی کہتا ہے کہ میں نے بھی اسے دیکھا تھا۔ بڑھاپے کی حالت میں اس کے دونوں ابرو آنکھوں پر گرنے کے باوجود وہ راستے چلتی چھوکریوں کو چھیڑتا اور ان پر دست درازی کرتا پھرتا تھا۔