تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں چودہ ہجری میں ایران فتح کرنے پر مامور کیا، عراق پر بھی ایرانیوں کی حکومت تھی، عراق فتح ہونے کے بعد سترہ ہجری میں وہاں کوفہ اور بصرہ نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ زیر بحث آیا، چنانچہ ان کی نگرانی میں یہ دونوں شہر آباد ہوئے۔ حضرت سعد ؓ اکیس ہجری تک وہاں کے گورنر رہے، اسی ضمن میں اہل کوفہ کے چند شرپسندوں نے انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کے خلاف جھوٹی شکایات کا پلندہ تیار کیا۔ شکایات کرنے والوں میں قبیلۂ بنو اسد کے جراح بن سنان، قبیصہ اور اربد، نیز ان کے علاوہ ایک اور شخص اشعت بن قیس پیش پیش تھے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں معزول کرکے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی نگرانی اور حضرت عثمان بن حنیف ؓ کو مفتوحہ علاقوں کی پیمائش کرنے پر مامور فرمایا۔ روایات میں وضاحت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے تفتیش کی تو تمام شکایات بے سروپا ثابت ہوئیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد ؓ کو ان کی بے بسی، عاجزی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا۔ حضرت سعد نے اس حدیث میں نماز کے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے، اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا۔ اس سے عنوان بالا کے جملہ مقاصد ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حدیث سعد کو مذکورہ عنوان کے تحت بیان کیا ہے کیونکہ اس میں عشاء کی پہلی دو رکعات کو لمبا اور آخری دو رکعات کو ہلکا کرنے کا بیان ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ نماز کی کسی رکعت میں قراءت ترک نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز جیسی نماز پڑھاتا ہوں۔ جب اس وضاحت کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے ساتھ ملایا جائے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے تو اس سے نماز میں قراءت کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت سعد امام تھے، اس لیے عنوان کے ایک جز کے ساتھ مطابقت ہو گئی۔ عنوان کے دیگر اجزاء دوسری احادیث سے ثابت ہوتے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد کے ہمراہ حقیقت حال کا جائزہ لینے کے لیے حضرت محمد بن مسلمہ اور عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔ (فتح الباري:308/2۔310)
(2) امام بخاری ؒ کا وجوب قراءت فاتحہ کے ثبوت میں، حدیث سعد ؓ کا انتخاب کرنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے وجدان کے مطابق یہ آپ کی دور اندیش اور بالغ نظری کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے کیونکہ جس طرح سفہائے عراق نے حضرت سعد کی نماز کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کیا، اس طرح فقہائے عراق نے نماز کی قراءت کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ قبیلۂ بنو اسد کے چند اوباش اور شرپسند لوگوں کو مستجاب الدعوات اور صحابئ جلیل حضرت سعد ؓ کی نماز کے متعلق یہی اعتراض تھا کہ یہ اپنی نماز کی تمام رکعات میں مساویانہ قراءت کیوں نہیں کرتے، اس کے برعکس ان کا پہلی دو رکعات کو طویل کرنا چہ معنی دارد؟ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان جہلاء کے اعتراض کی وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:309/2) بلکہ اس جہلانہ اعتراض کے پیش نظر حضرت سعد ؓ نے ان کے متعلق بایں الفاظ تبصرہ فرمایا کہ گنوار مجھے نماز سکھانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1019 (453)) فقہائے عراق بھی اسی قراءت کے متعلق تضادات کا شکار ہیں، چنانچہ ان کے ہاں مطلق قراءت فرض ہے، قراءت فاتحہ واجب اور قراءت فاتحہ خلف الامام کے متعلق کوئی نرم گوشہ نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ قراءت فاتحہ امام اور منفرد کے لیے پہلی دورکعات میں واجب ہے۔ اگر ان میں بھی سہوا رہ جائے تو سجدۂ سہو سے کام چل جائے گا، ان رکعات کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ واجب کے ترک کر دینے کی تلافی سجدۂ سہو ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف ان کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر دوآیات باہم متعارض ہوں تو وہ محل استدلال سے گرجاتی ہیں، پھر اس قاعدے کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ ’’قرآن میں سے جو تمھیں آسان ہو،اسے (نماز میں) پڑھو۔‘‘ (المزمل: 20:73) یہ آیت ایک دوسری آیت سے متعارض ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾ ’’ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرتے ہوئے اسے بغور سنو۔‘‘ (الاعراف204:7)ان دونوں آیات کا تعلق نماز سے ہے اور دونوں میں تعارض ہے،لہٰذا دونوں ساقط ہیں اور ان میں سے کسی کو بطور دلیل نہیں پیش کیا جاسکتا۔ (نورالأنوار،طبع مکتبہ رحمانیہ،لاھور،ص:194،193.(بحث وقوع التعارض بين الحجج) (738/277) صفحہ نمبر) واضح رہے کہ فقہائے عراق نے مطلق قراءت کی فرضیت کے لیے سورۂ مزمل کی مذکورہ بالا آیت کو بطور دلیل پیش کیا اور فاتحہ خلف الامام سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سورۂ اعراف کی مذکورہ آیت کو بطور ڈھال استعمال کیا، دوسری طرف ان دونوں آیات کو محل استدلال سے ساقط کر دکھایا۔واضح رہے کہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق اس میں کوئی اختلاف یا آیات میں باہمی تعارض نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾ ’’ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘ (النسآء82:4) سرسری نظر سے دیکھنے سے جو اختلافات نظر آتے ہیں اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کریم کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہے۔