صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
32. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی ، ( وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے ) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے یہاں فرشتے اللہ کے امر کے لیے لفظ «ماذا خلق ربكم» نہیں استعمال کرتے ہیں (پس اللہ کے کلام کو مخلوق کہنا غلط ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں)
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی ، ( وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے ) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے یہاں فرشتے اللہ کے امر کے لیے لفظ «ماذا خلق ربكم» نہیں استعمال کرتے ہیں (پس اللہ کے کلام کو مخلوق کہنا غلط ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں)
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Intercession with Him profits not, except for him whom He permits….’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔اور جابر ؓ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا”اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“تشریح:یہ باب لا کر حضرت امام بخاری نے متکلمین کا رد کیا معتزلہ کا بھی جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام معاذاللہ ہے اور مخلوقات کی طرح ہےمتکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذاتسے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سےاگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہتورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوںکہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہحوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیمفاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیداکرتا ہے کیااس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیںحالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلامنہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔
7551.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سیدنا آدم ؑ سے فرمائے گا: اے آدم! وہ کہیں گے: لیبك سعدیك پھر وہ بلند آواز سے ندا دے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر نکال کر باہر کر دو۔
تشریح:
1۔اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں آواز اور حروف ہیں اور اسے سنا جا سکتا ہے اور ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف نفسی کلام ہے جس میں حروف وآواز نہیں کیونکہ جس کلام میں آواز اورحروف ہوتے ہیں وہ حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت بھی حادث نہیں۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو مخلوق کے کلام کے مثل قراردیا، پھر قیاس کا سہارا لیتے ہوئے اس کی تاویلیں کی ہیں، حالانکہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باآواز بلند حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دے گا کہ تم اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر الگ کر دو۔ 2۔جامع ترمذی کی ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل دو آیات باآواز بلند تلاوت فرمائیں: ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی (ہولناک) چیز ہے۔ اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پیلانے والی اس سے غافل ہو جائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا، حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہوگا۔‘‘(الحج 1۔2) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں معلوم ہے کہ ایسا کب ہوگا؟‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: اللہ اور اسکے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اس دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو باآواز بلند فرمائے گا: اے آدم علیہ السلام! اپنی اولاد سے دوزخ کا حصہ الگ کر دو۔ حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے! اے میرے رب! دوزخ کا حصہ کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ایک ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لیے اور ایک شخص جنت کے لیے۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3169) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ باآواز بلند حضرت آدم علیہ السلام کو جہنم کا حصہ الگ کرنے کا حکم دے گا۔ اور یہ حکم آواز وحروف پر مشتمل ہوگا۔ وھو المقصود۔
اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔اور جابر ؓ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا”اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“تشریح:یہ باب لا کر حضرت امام بخاری نے متکلمین کا رد کیا معتزلہ کا بھی جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام معاذاللہ ہے اور مخلوقات کی طرح ہے متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سیدنا آدم ؑ سے فرمائے گا: اے آدم! وہ کہیں گے: لیبك سعدیك پھر وہ بلند آواز سے ندا دے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر نکال کر باہر کر دو۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں آواز اور حروف ہیں اور اسے سنا جا سکتا ہے اور ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف نفسی کلام ہے جس میں حروف وآواز نہیں کیونکہ جس کلام میں آواز اورحروف ہوتے ہیں وہ حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت بھی حادث نہیں۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو مخلوق کے کلام کے مثل قراردیا، پھر قیاس کا سہارا لیتے ہوئے اس کی تاویلیں کی ہیں، حالانکہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باآواز بلند حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دے گا کہ تم اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر الگ کر دو۔ 2۔جامع ترمذی کی ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل دو آیات باآواز بلند تلاوت فرمائیں: ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی (ہولناک) چیز ہے۔ اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پیلانے والی اس سے غافل ہو جائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا، حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہوگا۔‘‘(الحج 1۔2) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں معلوم ہے کہ ایسا کب ہوگا؟‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: اللہ اور اسکے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اس دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو باآواز بلند فرمائے گا: اے آدم علیہ السلام! اپنی اولاد سے دوزخ کا حصہ الگ کر دو۔ حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے! اے میرے رب! دوزخ کا حصہ کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ایک ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لیے اور ایک شخص جنت کے لیے۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3169) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ باآواز بلند حضرت آدم علیہ السلام کو جہنم کا حصہ الگ کرنے کا حکم دے گا۔ اور یہ حکم آواز وحروف پر مشتمل ہوگا۔ وھو المقصود۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے: ”کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سفارش کرسکے“ سیدنا مسروق نے سیدنا عبداللہ بن مسعود سے بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے زریعے سے کلام کرتا ہے تو آسمان والے کچھ سنتے ہیں۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور کیا جاتا ہے اور آواز بھی ٹھہر جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام برحق تھا۔ پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں : حق فرمایا ہے۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے بیان کیا جاتا ہے وہ عبداللہ بن انیس ؓ سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جمع کرے گا، پھر انہیں ایسی آواز سے پکارے گا جسے دور والے ایسے سنیں گے جیسے قریب والے سنتے ہیں۔ اللہ فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“ ¤
٭فائدہ: امام بخاری کی اس عنوان سے غرض اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام کی وضاحت کرنا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے یہ پہلا عنوان ہے جس کے تحت انہوں نے مسئلہ کلام سے متعلق گفتگو کی ہے اور مسئلےکی لمبی چوڑی تفصیلات ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم! وہ کہیں گے «لبيك وسعديك» پھر بلند آواز سے ندا دے گا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنی نسل میں سے دوزخ کا لشکر نکال۔
حدیث حاشیہ:
یہاں سے اللہ کے کلام میں آوا ز ثابت ہوئی اور ان نادانوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ آواز ہے نہ حروف ہیں۔ معاذاللہ اللہ کے لفظوں کو کہتے ہیں یہ اللہ کے کلام نہیں ہیں کیونکہ الفاظ اور حروف اور اصوات سب حادث ہیں۔ امام احمد نے فرمایا کہ کم بخت لفظیہ جہمیہ سے بدتر ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): The Prophet (ﷺ) said, "Allah will say (on the Day of Resurrection), 'O Adam!' Adam will reply, 'Labbaik wa Sa'daik! ' Then a loud Voice will be heard (Saying) 'Allah Commands you to take out the mission of the Hell Fire from your offspring.' "