صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
32. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی ، ( وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے ) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے یہاں فرشتے اللہ کے امر کے لیے لفظ «ماذا خلق ربكم» نہیں استعمال کرتے ہیں (پس اللہ کے کلام کو مخلوق کہنا غلط ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں)
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی ، ( وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے ) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے یہاں فرشتے اللہ کے امر کے لیے لفظ «ماذا خلق ربكم» نہیں استعمال کرتے ہیں (پس اللہ کے کلام کو مخلوق کہنا غلط ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں)
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Intercession with Him profits not, except for him whom He permits….’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔اور جابر ؓ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا”اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“تشریح:یہ باب لا کر حضرت امام بخاری نے متکلمین کا رد کیا معتزلہ کا بھی جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام معاذاللہ ہے اور مخلوقات کی طرح ہےمتکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذاتسے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سےاگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہتورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوںکہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہحوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیمفاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیداکرتا ہے کیااس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیںحالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلامنہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔
7552.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: مجھے جس قدر سیدہ خدیجہ ؓ پر غیرت آتی تھی اور کسی عورت پر نہیں آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نےآپ ﷺ کو فرمایا تھا کہ وہ انہیں جنت میں ایک گھر کی بشارت دے دیں۔
تشریح:
1۔دوسری روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی غیرت کا سبب بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اکثر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تذکرہ کرتے رہتے تھے اور بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کرتے، پھر ان کی سہیلیوں کے ہاں کافی مقدار میں گوشت بھیجتے تھے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3816) 2۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام نفسی نہیں بلکہ حروف وآواز پر مشتمل ہے اور قدیم ہی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً وہ جب چاہتا ہے کلام کرتا رہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نےحضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بشارت دینے کے لیے کلام فرمایا۔ اس حدیث میں لفظ "أمر" آیا ہے اور امر کلام سے ہوتا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے کلام کی نفی کی اس نے گویا رسالت کی نفی کی ہے کیونکہ رسالت مامورات اور منہیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 328/3)
اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔اور جابر ؓ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا”اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“تشریح:یہ باب لا کر حضرت امام بخاری نے متکلمین کا رد کیا معتزلہ کا بھی جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام معاذاللہ ہے اور مخلوقات کی طرح ہے متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: مجھے جس قدر سیدہ خدیجہ ؓ پر غیرت آتی تھی اور کسی عورت پر نہیں آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نےآپ ﷺ کو فرمایا تھا کہ وہ انہیں جنت میں ایک گھر کی بشارت دے دیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔دوسری روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی غیرت کا سبب بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اکثر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تذکرہ کرتے رہتے تھے اور بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کرتے، پھر ان کی سہیلیوں کے ہاں کافی مقدار میں گوشت بھیجتے تھے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3816) 2۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام نفسی نہیں بلکہ حروف وآواز پر مشتمل ہے اور قدیم ہی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً وہ جب چاہتا ہے کلام کرتا رہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نےحضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بشارت دینے کے لیے کلام فرمایا۔ اس حدیث میں لفظ "أمر" آیا ہے اور امر کلام سے ہوتا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے کلام کی نفی کی اس نے گویا رسالت کی نفی کی ہے کیونکہ رسالت مامورات اور منہیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 328/3)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے: ”کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سفارش کرسکے“ سیدنا مسروق نے سیدنا عبداللہ بن مسعود سے بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے زریعے سے کلام کرتا ہے تو آسمان والے کچھ سنتے ہیں۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور کیا جاتا ہے اور آواز بھی ٹھہر جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام برحق تھا۔ پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں : حق فرمایا ہے۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے بیان کیا جاتا ہے وہ عبداللہ بن انیس ؓ سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جمع کرے گا، پھر انہیں ایسی آواز سے پکارے گا جسے دور والے ایسے سنیں گے جیسے قریب والے سنتے ہیں۔ اللہ فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“ ¤
٭فائدہ: امام بخاری کی اس عنوان سے غرض اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام کی وضاحت کرنا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے یہ پہلا عنوان ہے جس کے تحت انہوں نے مسئلہ کلام سے متعلق گفتگو کی ہے اور مسئلےکی لمبی چوڑی تفصیلات ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جس قدر مجھے خدیجہ ؓ پر غیرت آتی تھی اور کسی عورت پر نہیں آتی تھی اور ان کے رب نے حکم دیا تھا کہ انہیں جنت میں ایک گھر کی بشارت دے دیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سےامام بخاری نےیہ ثابت کیا کہ اللہ کا کلام صرف نفسی اور قدیم نہیں ہے بلکہ وقتاً فوقتًا وہ کلام کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ خدیجہ ؓ کوبشارت دینے کےلیے اس نے کلام کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : I never felt so jealous of any woman as I felt of Khadija, for Allah ordered him (the Prophet) to give Khadija (RA) the glad tidings of a palace in Paradise (for her).