تشریح:
1۔ہمارے اکثر لوگ نوشتہ تقدیر (تقدیر کے لکھے ہوئے) کو بہانہ بنا کر بد عملی کا شکار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ محض کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں مشیت تو اللہ تعالیٰ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے؟ مشرکین مکہ بھی اپنے اختیاری شرک کے لیے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو پیش کرتے تھے چنانچہ قرآن میں ہے۔ ’’یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس (اللہ) کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت نہ کرتے۔‘‘ (النحل:16۔35) آج کج فہم قسم کے مجرم اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کا بہانہ پیش کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کے نتیجے کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادے اور اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے علم ہوتا ہے قیامت کے دن انسان کو اپنے ارادے و اختیار کے استعمال پر جزایا سزا ملے گی یہ لوگ فراخی رزق یا طلب اولاد یا بیماری سے شفا یابی کے لیے کبھی تقدیر کا سہارا نہیں لیتے کہ جو کچھ ہمارے مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا بلکہ وہ حصول رزق کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں طلب اولاد کے لیے شادی رچاتے ہیں اور حصول شفا کے لیے حکیم یا ڈاکٹر کے پاس بھی جاتے ہیں لیکن نماز، روزے کے اہتمام سے پہلو تہی کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنا لیتے ہیں
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ انسان کو اس کے اختیاری عمل پر جزا و سزا دی جائے گی۔ جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے بندہ در حقیقت اپنے اعمال کا فاعل ہے وہ اسی بنا پر مومن یا کافر ہے۔ اسی طرح قاری جب اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھتا ہے تو قراءت اس کا فعل اور کسب ہے اور جسے پڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کی صفت ہے جسے اس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے جب قاری اسے پڑھتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو اس عمل کی نسبت انسان کی طرف ہوگی اور اس کے مطابق اسے جزا دی جائے گی۔ واللہ المستعان۔