تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بندہ اپنے افعال کا کسب کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرتا ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سواریاں فراہم کیں اور فرمایا: ’’یہ سواریاں میں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں جیسا کہ روزے دار بھول کر کھا لے تو فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اسے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت عطا کیا تھا تو درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی نے انھیں اونٹ دیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے افعال کا خالق ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل عطا کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اسباب کا مہیا کرنے والا اور انھیں پیدا کرنے والا وہ خود ہے
2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: اس حدیث میں سواریاں دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی گئی ہے حالانکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فراہم کی تھیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب مہیا کیے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور جب آپ نے مٹھی پھینکی تو وہ آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔‘‘ (الأنفال :8/17۔ وفتح الباري:663/13)